بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تکمیلِ دین کی آیت کے بعد کیا آیات نازل ہوئی ہیں؟


سوال

قرآنِ مجید  میں سورۃ المائدہ  کی آیت نمبر تین میں جو دین کو مکمل کرنے کی بات کی گئی ہے، اس آیت کے بعد کتنی آیات نازل ہوئیں؟ اور کیا ان کے بعد کی آیات میں مزید اَحکامات نازل ہوئے؟ اگر نازل ہوئے تو دین کو مکمل کرنے کا کیا معنی ہوا؟

جواب

سوال کے تین جزء ہیں، ہر جزء کا نمبر وار جواب ملاحظہ ہو :

(الف): سورۃ المائدۃ  آیت نمبر 3کے بعدجو آیتیں  نازل ہوئی ہیں، علی اختلاف الاقوال وہ درج ذیل  ہیں :

1:آیة الکلالة  یعنی  {وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْيَتَامَى بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا} [النساء:127]

2:آیة الربوا.

3:  {وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ} [البقرة:281] 

4: {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [التوبة:128]

كمافيالسراج المنيرلشمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربيني الشافعي:

"فعاش صلى الله عليه وسلم بعدها ثمانين يوماً، ثم نزلت آية الكلالة فعاش بعدها خمسين يوماً، ثم نزلت {لقد جاءكم رسول من أنفسكم} (التوبة: 128)فعاش بعدها خمسة وثلاثين يوماً، ثم نزل: {واتقوا يوماً ترجعون فيه إلى الله} (البقرة: 281) ... الخ" (سورة النصر، ج:۴، ص:۶۰۳، ط:بولاق[الأمیریة ]القاهرة)

وفي التفسیر المظهري لمحمدثناء الله المظهري:

"عن البراء بن عازب قال: آخر سورة نزلت كاملةً براءة، وآخر آية نزلت خاتمة سورة النساء {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ}، متفق عليه، وقال البغوي: عن ابن عباس آخر آية نزلت آية الربوا وآخر سورة نزلت {إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ}، وروي عنه أن آخر آية نزلت قوله تعالى: {وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ} ويروى أنه بعد ما نزلت سورة النصر عاش النبي صلى الله عليه وسلم عامّا ونزلت بعدها سورة براءة وهي آخر سورة نزلت كاملةً فعاش بعدها ستة أشهر، ثم نزلت فى طريق حجة الوداع {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ} فسميت آية الصيف، ثم نزلت بعدها وهو واقف بعرفة {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ} فعاش بعدها أحدًا وثمانين يومًا، ثم نزلت آية الربوا، ثم نزلت {وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ} فعاش بعدها أحد أو عشرين يومًا والله أعلم". (سورة النساء ،ج:۲،ص:۲۸۶،ط:رشیدیه)

وفي فتح القدیر للعلامة الشوکاني:

"قالوا: وقد نزل بعد ذلك قرآن كثير كآية الربا وآية الكلالة ونحوهما." (المائدة،ج:۲،ص:۱۴، ط:دار ابن کثیر)

             (ب): مذکورہ حوالہ جات سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اکمالِ دین والی آیت کے بعد اَحکام والی دو آیتیں  یعنی آیۃ الکلالۃ اور آیۃ الربوٰ نازل ہوئی ہیں، لیکن حضرات مفسرین کے نزدیک صحیح   یہ ہے کہ اکمالِ دین والی آیت کےنزول  کے بعداَحکام کی   کوئی آیت نازل  نہیں ہوئی۔

             اس پر اشکال ہوگا کہ پھر ’’آیۃ  الکلالۃ‘‘  اور ’’آیۃ الربا‘‘  کے بارے میں جو روایات  وارد ہیں، ان کا کیا مطلب ہے؟

            مفسرِقرآن حافظ محمد ثناء اللہ مظہری  پانی پتی رحمہ اللہ نے  ’’آیۃ الربا‘‘  کا جواب یہ دیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے جو روایت منقول ہے کہ ’’آیۃ الربا‘‘ سے  مراد  سورۃ البقرۃ  کے آخر  میں جو آیت :{الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ} [البقرۃ:275] ہے، یہ آیت اکمالِ دین والی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے،  تو اولاً حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت نازل تو پہلے ہی ہوئی تھی، لیکن جیساکہ بعض آیات کے شانِ نزول میں مفسرین مختلف واقعات لکھتے ہیں، جب کہ حقیقت میں شانِ نزول ایک ہی ہوتاہے، وجہ یہ ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بعض اوقات ایک ہی آیت سے مختلف مواقع پر استدلال کیا گیا، جس مجلس میں جو شخص موجود تھے انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی ہے، اور بعض مرتبہ ایک ہی آیت ایک سے زائد مرتبہ بھی نازل ہوئی، بہر حال اس بحث سے قطع نظر اگر ہم اس روایت کو صحیح مان لیں، یعنی یہ تسلیم کرلیں کہ سورۂ بقرہ کی آیتِ ربا کا نزول ہی آیتِ اِکمالِ دین کے بعد ہوا ہے،  تب بھی مطلب یہ ہوگا کہ ربوا والی مذکورہ آیت، اگرچہ اکمالِ دین والی آیت  کےبعد  نازل ہوئی ہو، لیکن یہ ربا والی آیت زجراً وتوبیخاً نازل ہوئی ہے، اس لیے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سود کی حرمت کاحکم اکمالِ دین والی آیت سےپہلے نازل ہوچکا تھا، چناں چہ فتحِ مکہ مکرمہ کے بعد اور حجۃ الوداع سے پہلے عرب کے دو قبیلوں کے درمیان سودی معاملات میں اختلاف ہوا، تو مکہ مکرمہ کے گورنر نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ معاملہ لکھ کر بھیج دیا کہ اس کا حل ارشاد فرمائیے! اس موقع پر سود کی حرمت جو مذکورہ آیات میں بیان کی گئی ہے، انہیں بتادی گئی، اور حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے جو تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا اس میں بھی آپ ﷺ نے واشگاف الفاظ میں تمام سودی معاملات کے فسخ کرنے کا اعلان فرماکر سب سے پہلے اپنے خاندان کے ان افراد کا سود وضع فرمادیا جو اسلام سے پہلے انہوں نے معاملات کیے تھے، لہذا معلوم ہوا کہ اکمالِ دین والی آیت  کے بعد سود کی حرمت کاحکم نازل نہیں ہوا  ہے۔

کمافي التفسیر المظهري لمحمدثناء الله المظهري:

"قال ابن عباس: لم ينزل بعد هذه الآية حلال ولا حرام ولا شىء من الفرائض والسنن والحدود والأحكام، فإن قيل: يروى عن ابن عباس أنّ آية الربوا نزلت بعدها؟ قلنا: إن صحّ هذا، فالمراد أن قوله تعالى في آخر البقرة: {الذين يأكلون الربوا لايقومون} إلى قوله تعالى: {يايها الذين اٰمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربوا} الآية، نزلت بعد ذلك، ولا شك أنّ حرمة الربوا كانت قبل نزول تلك الآية، وإنما نزلت تلك الآية للتوبيخ، وقد ورد في حديث جابر عند مسلم في قصة حجة الوداع قوله صلى الله عليه وسلم: "وربوا الجاهلية موضوع، وأول ربوا أضع من ربانا ربوا عباس بن عبد المطلب؛ فإنه موضوع كله ... الخ" (سورة المائدة، ج:۳، ص:۲۴،۲۵، ط:رشیدیة)

’’آیۃ الربا ‘‘ کے حوالے سے دوسرا جواب ملا علی قاری رحمہ اللہ نے دیا ہے کہ ’’آیۃ الربا‘‘  کا سب سے آخر  میں نازل  ہونے کا مطلب  یہ ہے کہ معاملات  کے متعلق  جوآیتیں نازل ہوئی ہیں،اُن میں سب سے آخر میں ’’آیۃ الربا‘‘  نازل ہوئی ہے ،یہ مطلب نہیں ہےکہ مطلقاً  سب سے آخر میں ’’آیۃ الربا‘‘ نازل ہوئی ہے ۔

کمافي مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح  للملا علي القاري:

"(وعن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - إن آخر ما نزلت آية الربا) أي آخر آية تعلقت بالمعاملات لا مطلقاً؛ لأنّ آخر الآيات نزولاً على الإطلاق قوله تعالى: {اليوم أكملت لكم دينكم} ...الخ" (کتاب البیوع، باب الربا، ج:۵، ص:۱۹۲۶، رقم:۲۸۳۰، ط:دار الفکر)

باقی ’’آیۃ الکلالۃ‘‘  کے بارے میں بھی مفسرین رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ’’آیۃ الکلالۃ‘‘  اکمالِ دین والی آیت سے پہلے نازل ہوئی نہ کہ بعد میں۔

کمافي تفسیرالقرآن الکریم لأبي المظفر منصور بن محمد السمعاني:

"وقيل : لم ينزل بعد هذه الآية شيء من الأحكام حتى قيل: إن قوله : (يستفتونك ) في آية الكلالة، إنما نزل قبل هذه الآية." (سورة المائدة، ج:۲، ص:۱۱،ط: دار الوطن – الرياض)

وفي  التفسير الكبير للإمام فخر الدين الرازي:

"قال ابن عباس: هذه الآية آخر آية نزلت على الرسول عليه الصلاة والسلام، وذلك لأنه عليه السلام لما حجّ نزلت يستفتونك [النساء: 127] وهي آية الكلالة، ثمّ نزل وهو واقف بعرفة: {اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي} [المائدة: 3]." (سورة البقرة، ج:۷، ص:۸۷، ط:دار إحیاء التراث العربي)

(ج): اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ {الیوم اکملت}  والی آیت  تکمیلِ دین   کی خبر دیتی ہے جب کہ اس کے بعد دیگر آیات بھی نازل ہوئی ہیں  تو  ایسی صورت میں  اکمالِ دین والی آیت کا کیامطلب ہوگا؟

            حضرات مفسرین  نے  مذکورہ آیت کے تین مطلب بیان کیے ہیں:

۱: آیت میں تکمیلِ دین کامطلب یہ ہے کہ اصولِ عقائد ،اصولِ احکام (یعنی فرائض، واجبات، سنن، حلال، حرام، مکروہ وغیرہ کےتمام اَحکام)اور قوانینِ اجتہاد  نازل ہوچکے ہیں، جس کے بعد دین  اصولی طور پر مکمل  ہوچکا ہے، اب حلال یاحرام کا کوئی حکم ناز ل نہیں ہوگا، اس لیے اس آیت کے بعد ترغیب یا ترہیب کی جوآیت نازل ہوئی  ہے، وہ تکمیلِ دین کے منافی نہیں ہے ۔

کمافي التفسیر المظهري لمحمد ثناء الله المظهري:

"{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ} بالتنصيص على قواعد العقائد والتوقيف على أصول الشرائع من الفرائض والواجبات والسنن والآداب والحلال والحرام والمكروه وموجبات الفساد لما له وجود شرعي كالصلوة والصوم والبيع ونحوها وقوانين الاجتهاد فيما لا نص فيه ... الخ" (سورة المائدة، ج:۳، ص:۲۴، ط:رشیدیة)

۲:آیت میں تکمیلِ دین کامطلب یہ ہےکہ نبی کریم ﷺقربِ الہی  کے منازل  میں اُس بلند مرتبہ تک پہنچ چکے ہیں  کہ جس پر اولین واخرین  رشک کرتےہیں۔

کمافي التفسیر المظهري لمحمد ثناء الله المظهري:

"وجاز أن يكون المراد بإكمال الدّين بلوغه صلى الله عليه وسلم في معارج القرب إلى مرتبة يغبطه الأولون والآخرون حتى غفر لكمال محبوبيته جميع ذنوب أمته حتى الدماء والمظالم، عن عباس بن مرداس أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا لأمّته عشية عرفة بالمغفرة، فأجيب أني قدغفرت لهم ما خلا المظالم، فإني أخذ للمظلوم منه، قال: أي رب إن شئت أعطيت المظلوم من الجنة وغفرت للظالم، فلم يجب عشيته، فلما أصبح بالمزدلفة أعاد الدعاء، فأجيب إلى ما سأل، قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، أو قال: تبسم، فقال أبو بكر وعمر: إن هذه لساعة ما كنت تضحك فيها، فما الذي أضحكك -أضحك الله سنّك!-؟ قال: إنّ عدوّ الله إبليس لما علم أن الله قد استجاب دعائي وغفر لأمتي أخذ التراب فجعل يحثوه على رأسه ويدعو بالويل والثبور، فأضحكني ما رأيت من جزعه. رواه ابن ماجة والبيهقي فى كتاب البعث ... الخ"  (سورة المائدة، ج:۳، ص:۲۴، ط:رشیدیة)

۳:آیت میں تکمیلِ دین کامطلب   یہ ہے کہ  آج  کے دن اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے لیے حج  کی تکمیل کردی  کہ آج مسلمان اِس حال میں  حج کا فریضہ  سرانجام دے رہے ہیں کہ کوئی مشرک ان کے ساتھ اس میں  شریک  نہیں ہے ۔

      كمافي جامع البيان في تأويل القرآن لمحمدبن جریر  الطبري:

"وقال آخرون: معنى ذلك:{اليوم أكملت لكم دينكم}، حجكم، فأفردتم بالبلد الحرام تحُجُّونه، أنتم أيها المؤمنون، دون المشركين، لايخالطكم في حَجِّكم مشرك." (سورة المائدة، ج:۹، ص:۵۱۹،ط:مؤسسة الرسالة)

            اگر اکمال ِدین والی اِس آیت کے آخری دو مطلب لیےجائیں تو  ایسی صورت میں اِس آیت کے بعد کسی آیت کے نازل ہونے کا اشکال ہی پیدا  نہیں  ہوتا، اور پہلا مطلب مراد لیا جائے تب بھی اس کے بعد آیات کے نازل ہونے سے اصولِ عقائد، اصولِ احکام اور قوانینِ اجتہاد پر فرق نہیں پڑتا ۔

            اس پوری بحث کاحاصل یہ نکلا کہ تکمیلِ دین کا مطلب یہ ہے کہ اس کےبعد حلال یا حرام کا کوئی حکم ناز ل نہیں ہوگا، رہی یہ بات کہ تکمیلِ  دین والی آیت کے بعد بھی آیات نازل ہوئی ہیں تو وہ ترغیب وتر ہیب  پر مشتمل ہیں، ان میں اَحکام کی کوئی آیت نہیں ہے، باقی ’’آیۃ الکلالۃ‘‘  مذکورہ آیت سے پہلے نازل ہوئی اور ’’آیۃ الربا‘‘  کی روایت کو  اگر صحیح تسلیم کربھی لیا جائےتو وہ توبیخاً نازل ہوئی ہے؛ اس لیے کہ بلاشک وشبہ سود کی حرمت  کاحکم اکمالِ دین والی آیت سے پہلے آچکا تھا یایہ کہ معاملات کی آیات میں سے  سب سے آخر میں ’’آیۃ الربا‘‘ نازل ہوئی ہے۔

            یہ بحث تو تب ہےکہ جب آیت کا پہلا مطلب لیاجائے، لیکن اگر آیت کے آخری دو مطلب لیےجائیں تو  ایسی صورت میں اِس آیت کے بعد کسی آیت کے نازل ہونے کا اشکال ہی پیدا  نہیں  ہوتا ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200091

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں