بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کمپنی میں حصہ ڈالنا


سوال

لائف انشورنس اسٹیٹ بینک کی جانب سے لائف پالیسی میں حصہ ڈالنا یا حاصل کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مروجہ انشورنس  کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی  بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر  "سود" کے ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے۔

انشورنس میں   "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔

اسی طرح اس میں  جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی  پایا جاتا ہے،  اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے  فاسد قرار دیا ہے، لہذا انشورنس کمپنی میں حصہ ڈالنا اور اس کا  ممبر بننا شرعاً ناجائز  اور حرام ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}."[البقرة:278، 279]

ترجمہ:"اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔"(از بیان القرآن)

قرآن مجید میں ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ." ﴿المائدة: ٩٠﴾

ترجمہ:" اے ایمان والو :بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام  ہیں ،سواس سے بالکل الگ رہو،تاکہ تم کو فلاح ہو"۔(بیان القرآن)

حدیث پاک میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء."

(الصحيح لمسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، ج: 3، ص: 1219، ط: دار إحياء التراث العربي)

حدیث شریف میں ہے:

"وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم:إن الله حرّم أمتي الخمر و الميسر."

(المسند للامام احمد،2 /124،ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة ، فصل في البيع، ج: 6، ص : 403، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں