بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

متفرق تعلیق طلاق دینا


سوال

مفتیان کرام سے سوال یہ ہے کہ ایک شوہر نے اپنی بیوی کو کہا کہ "اگر تم نے اپنی بہن سے بات کی تو تم مجھ پر طلاق ہوگی۔"بیوی نے کچھ عرصے تک اپنی بہن سے بات نہیں کی لیکن پھر شروع کردی۔

اس واقعہ کے تقریبا ایک سال یا ڈیڑھ سال بعد شوہر نے بیوی کو کہا کہ "اگر تم نے آئندہ میری ماں سے تیز کلامی کی تو تم مجھ پر طلاق ہوگی یا میں طلاق دے دوں گا۔"یہ الفاظ ان کو اب صحیح یاد نہیں کہ 'طلاق ہوگی' استعمال کیے تھی یا 'طلاق دے دوں گا' استعمال کیے تھے۔ اور اس شرط کے پورے ہونے کا بھی یاد نہیں کہ اس کےبعد شوہر کی ماں سے تیز کلامی ہوئی ہے یا نہیں۔

دوسرے واقعہ کے تقریبا ایک سال یا ڈیڑھ سال بعد شوہر نے قرآن پر قسم کھاتے ہوئے بیوی کو کہا کہ "اگر تم پھر اپنی ماں کے گھر گئی تو مجھ پر تین انگلیاں طلاق ہوگی" اسی وقت یہ الفاظ بھی ساتھ کہے کہ "مجھ پر تین پتھر پر طلاق ہوگی۔"اس موقع پر غصہ ٹھنڈا ہونے کےبعد قرآن پر قسم کھاتے ہوئے شوہر نے بیوی کو کہا کہ میرے دل میں صرف ایک مہینے کی نیت تھی کہ ایک مہینہ آپ ماں کے گھر نہیں جاؤگی۔ اب اس مسئلہ کی کیا نوعیت اور کیا حل ہے۔

وضاحت:  1۔ جی بالکل پہلی شرطیہ طلاق کےبعد بھی بیوی اپنے شوہر کےساتھ ہی رہ رہی تھی۔

2۔ شوہر نے قسم اٹھاتے ہوئے جو شرطیہ طلاق دی، اس کے ایک مہینہ اور دو دن بعد بیوی اپنی ماں کے گھر گئی۔

جواب

صورت مسئولہ میں پہلی طلاق شرط کے پورے ہونے سے واقع ہوگئی، اس کے بعد زوجین ایک ساتھ رہے تو نکاح برقرار رہا، پھر ڈیڑھ سال بعد دوسری شرطیہ طلاق کے جملے کہے، لیکن اس سے متعلق سائل کو یا د نہیں،  تاہم تیسری شرطیہ طلاق  "اگر تم پھر اپنی ماں کے گھر گئی تو مجھ پر تین انگلیاں طلاق ہوگی" اسی وقت یہ الفاظ بھی ساتھ کہے کہ "مجھ پر تین پتھر پر طلاق ہوگی" اور اس شرط کے ایک مہینہ دو دن بعد جب بیوی اپنے ماں کے گھر گئی تو شرط کے پائے جانے کی وجہ سے بقیہ دو طلاقیں بھی واقع ہوگئی، نکاح ختم ہوگیا، اور اب دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں  ہے ۔اگرچہ شوہر یہ کہے کہ میری نیت ایک مہینہ کی تھی ،اس طرح کے معاملات میں الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے ،نیت کا نہیں ۔جبکہ الفاظ میں ایک ماہ کا  ذکر نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق وكذا إذا قال: إذا أو متى وسواء خص مصرا أو قبيلة أو وقتا أو لم يخص وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا."

(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما: 1/ 420، ط: ماجدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں