بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا


سوال

بکرے کی قربانی دی اور کھال اُتارنے کے بعد،اس کی غلاظت یعنی اوجڑی وغیرہ نکال کر اس بکرے کا وزن کیا اور اس کے تین حصے کیے،  یہ عمل اس لیے کیا کہ جو میرا حصہ ہے اس میں سے میں اپنی گھریلو ضرورت کے مطابق مخصوص  سائز کی بوٹیاں بنا کر رکھوں گا، اس عمل کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ قربانی کے گوشت کے سلسلے میں  ذبح کے بعد گوشت سارا کا سارا تقسیم بھی  کیا جاسکتا ہے، اور  سارا  اپنے لیے محفوظ بھی  رکھ  سکتے ہیں،  البتہ  چوں کہ آثارِ صحابہ میں (حضرت عبد اللہ بن مسعود  و عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ) قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا منقول ہے، لہذا  ا فضل یہ  ہے کہ گوشت  کے تین حصے کرکے ایک حصہ غرباء میں تقسیم کردیا جائے،  اور ایک حصہ رشتہ داروں میں تقسیم کردیا جائے، اور ایک حصہ اپنے لیے محفوظ کرلیا جائے؛ لہذا سائل کا بکرے کی قربانی کے بعد  تین حصے کرنا اگر افضل صورت کے مطابق تقسیم کرنے کے لیے ہو تو پسندیدہ عمل ہے، پھر اس کا تیسرا  حصہ  جو کہ اپنے لیے رکھ لیا ہو، اس میں  سائل اپنی مرضی کے مطابق بوٹیاں وغیرہ بنا سکتا ہے ۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن سلمة بن الأكوع، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من ضحى منكم فلا يصبحن بعد ثالثة وبقي في بيته منه شيء» فلما كان العام المقبل، قالوا: يا رسول الله، نفعل كما فعلنا عام الماضي؟ قال: «كلوا وأطعموا وادخروا، فإن ذلك العام كان بالناس جهد، فأردت أن تعينوا فيها."

(باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها، ج:7، ص:103، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ: حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص قربانی کرے تو تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ رہناچا ہیے‘‘۔ پھر جب اگلا سال آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا اس سال بھی ہم گزشتہ سال کی طرح عمل کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’خود بھی کھاؤ، اوروں کو بھی کھلاؤ اور محفوظ بھی کرو، اس لیے کہ پچھلے سال لوگ محتاج اور ضرورت مند تھے تو میں نے چاہا کہ تم ان کی اعانت کرو‘‘۔

 

عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:

"قوله: (فلا يصبحن من الإصباح) ، قوله: (بعد ثالثة) ، أي: ليلة ثالثة من وقت التضحية. قوله: (وفي بيته) ، الواو فيه للحال. قوله: (وادخروا) بالدال المهملة المشددة لأن أصلها اذتخروا من ذخر بالذال المعجمة اجتمع مع تاء الافتعال وقلبت التاء دالا فصار إذ دخروا. ثم قلبت الذال دالا وأدغمت الدال في الذال فصار: ادخروا. قوله: (جهد) ، أي: مشتقة يقال: جهد عيشهم أي: نكد واشتد وبلغ غاية المشقة ففي الحديث دلالة على أن تحريم ادخار لحم الأضاحي كان لعلة، فلما زالت العلة زال التحريم".

 (باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها، ج:21، ص:159، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

أما أثر ابن عمر:

فأخرجه ابن حزم في «المحلى»: (7/270، 271-ط. المنيرية) من طريق وكيع عن ابن أبي رواد عن نافع عن ابن عمر قال: "الضحايا والهدايا ثلث لأهلك وثلث لك وثلث للمساكين".وإسناده حسن، عبد العزيز بن أبي روّاد تكلم فيه، وتكلم ابن حبان في روايته عن نافع، وحديثه يحمل على الاستقامة مالم يخالف.

وأما أثر ابن مسعود:
فأخرجه سعيد بن أبي عروبة في «كتاب المناسك»: (101) وعنه ابن أبي شيبة في «المصنف»: (4/1/152)، ورواه الطبراني في «معجمه الكبير»: (9/342)، والبيهقي في «الكبرى»: (5/240) وأبو يوسف في «الآثار»: (126) وابن حزم في «المحلى»: (7/270) عن إبراهيم عن علقمة عن ابن مسعود رضي الله عنه: "كان يبعث بالبدن مع علقمة ولا يمسك عما يمسك عنه المحرم ثم يأمره إذا بلغت محلها أن يتصدق ثلثاً ويأكل ثلثاً ويبعث إلى ابن أخيه عبد الله بن عتيبة بن مسعود ثلثاً".وإسناده صحيح.
وأخرجه الطبراني في «الكبير»: (9/241) من طريق عمر بن ذر حدثني مجاهد: "أن عبد الله بن مسعود بعث مع رجل ببدنه، فقال: كيف أصنع بها؟، قال: كل أنت وأصحابك ثلثاً وابعث إلى أعرابنا ثلثاً وتصدق بثلث".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه ويدخر الثلث لقوله تعالى {فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر} [الحج: 36] وقوله -عز شأنه - {فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير} [الحج: 28] وقول النبي عليه الصلاة والسلام: "كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا"، فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا."

(كتاب التضحية،فصل في بيان ما يستحب قبل التضحية وبعدها وما يكره، 5/ 81،  ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ويستحب أن يأكل من أضحيته ويطعم منها غيره، والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه، ويدخر الثلث، ويطعم الغني والفقير جميعا، كذا في البدائع. ويهب منها ما شاء للغني والفقير والمسلم والذمي، كذا في الغياثية. ولو تصدق بالكل جاز، ولو حبس الكل لنفسه جاز، وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام إلا أن إطعامها والتصدق بها أفضل إلا أن يكون الرجل ذا عيال وغير موسع الحال فإن الأفضل له حينئذ أن يدعه لعياله ويوسع عليهم به، كذا في البدائع".

(كتاب الأضحية، ج:5، ص:300، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100285

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں