بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ بیٹی اور ماں شریک بھائی ہو تو ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا؟


سوال

اگر متوفی کی 56 کنال کی زمین ہو اور اس کی ایک بیٹی اور ایک بیوی ہو ،کوئی سگا بھائی باپ کی طرف سے نہ ہو لیکن ماں کی طرف سے ایک بھائی ہو، متوفی کے مرنے کے وقت اس کے والدین زندہ نہ ہوں۔

اس کے 3 چچے ہوں جو فوت ہو گئے ہوں ،لیکن ان کے خاندان ہوں تو جائیداد کی تقسیم کیسے ہو گی؟  مجھے فتویٰ چاہیے ،یہ میرا کیس چل رہا ہے عدالت میں ۔ 

وضاحت: مذکورہ تینوں چچاؤں کاانتقال متوفیٰ سے پہلے ہوچکاتھا۔

جواب

صورت مسئولہ میں چونکہ مرحوم کے ورثا ءمیں صرف بیوہ اور بیٹی موجود ہیں،،چچاؤں کا انتقال چونکہ مرحوم سے پہلے ہوچکا تھا اس لئے ان کا اور ان کی اولاد کا مرحوم کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں،نیز چونکہ مرحوم کے ورثاء میں مرحوم کی بیٹی موجود ہے ، اس  لئے مرحوم  کےماں شریک  بھائی کا بھی مرحوم کے ترکے میں کوئی حصہ نہیں۔

مرحوم کے ترکے کی تقسیم درج ذیل طریقہ سے کی جائے گی:

سب سے پہلے مرحوم کے حقوق  متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کےاخراجات نکال کر اگر مرحوم پر قرضہ ہو اس کو ادا کر  کے اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو اس کو ایک تہائی ترکے  سے نکال کر  بقیہ تمام تر کہ کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ مرحوم کی بیوہ کو  اور بقیہ سات حصے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے.

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:8

بیوہبیٹیماں شریک بھائی
14محروم
 

3 (بعدالرد)

 

یعنی سو روپے میں سے بارہ روپے پچاس پیسے مرحوم کی  بیوہ کو  اور ستاسی روپے پچاس پیسے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے۔

سراجی میں ہے:

"واما لاولاد الام فاحوال ثلاث....   . ويسقطون بالولد وولد الابن وان سفل وبالاب والجد بالاتفاق".

(السراجی فی المیراث،احوال اولاد ام،ص:16و17ط: البشریٰ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں