بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر اگر مردانگی کے اعتبار سے کمزور ہو تو بیوی طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے؟


سوال

ایک عورت نے پوچھا ہے کہ میرا شوہر دخول سے پہلے فارغ ہو جاتا ہے ،تو کیا اس پر غسل فرض ہو گا یا نہیں؟ اگر وہ شوہر کے اس عذر کی وجہ سے اس سے علیحدگی چاہے ،تو کیا وہ اس وعید کی مستحق ہو گی کہ جو عورت خود طلاق مانگے تو وہ جنت کی خوشبو سے محروم ہو گی ،اس کا شوہر اولاد کا خواہاں ہے ،تو ایک دن اس نے شوہر سے کہا کہ آپ علاج کی طرف توجہ نہیں دیتے تو اولاد کیسے ہو گی، تو شوہر نے کہا کہ مجھے اللہ پر یقین ہے کہ جس طرح اس نے حضرت مریم علیہا السلام کو اولاد دی تھی اس طرح وہ تمہیں بھی دے گا تو کیا شوہر کے ان الفاظ سے نکاح پر تو کوئی اثر نہیں پڑا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کا شوہر جوکہ دخول سے پہلے  فارغ ہوجاتا ہے تو  اس مرد پر غسل واجب ہے،  عورت کو اگر اس دوران انزال نہ ہو اور اس کی منی خارج نہ ہو تو اس پر غسل فرض نہیں ہوگا۔

اگر عورت مذکورہ عذر کی وجہ سے اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ،تو اس سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے،  مذکورہ عذر کی وجہ سے طلاق کے مطالبہ کرنے سے اس وعید کی مستحق نہیں ہوگی کی جو عورت بلاوجہ شوہر سے طلاق مانگے وہ جنت کی خوشبوسے محروم ہوگی، باقی شوہر کا یہ کہنا کہ جب اللہ نے حضرت مریم علیھا السلام کو بغیر شوہر کے اولاددی ہے تو وہ مجھے بھی دے گا اس کے اپنے حق میں یہ بات درست نہیں ،کیوں کہ اگر چہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے،چاہے شوہر کے ہوتے ہوئے اولاد دے یا شوہر کے بغیر اولاد دے،لیکن اللہ پاک نے شوہر کو اولاد کے وجود کا سبب بنایا ہے ،جب میاں بیوی ملتے ہیں تو اللہ پاک اولاد کو وجوددیتا ہے،باقی شوہر کے مذکورہ جملہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا،لہذا شوہر کو چاہیے کہ اپنا علاج کروائے ،علاج میں بالکل کوتاہی نہ کرے ،اگر علاج میں کوتاہی کرے گا تو یہ بیوی کے حقوق میں حق تلفی ہوگی،اور شوہر گناہ گار ہوگا۔

تفسیر ابن الجوزی میں ہے:

"قوله تعالى: وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً.

 نزلت في ثابت بن قيس بن شمَّاس، أتت زوجته إلى النبيّ صلّى الله عليه وسلّم، فقالت: والله ما أعيب على ثابت في دين ولا خلق، ولكني أكره الكفر في الإسلام، لا أطيقه بغضاً. فقال لها النبي صلّى الله عليه وسلّم «أتردّين عليه حديقته» ؟ قالت: نعم، فأمره النبي صلّى الله عليه وسلّم، أن يأخذها، ولا يزداد. رواه عكرمة عن ابن عباس. واختلفوا في اسم زوجته، فقال ابن عباس: جميلة. ونسبها يحيى بن أبي كثير، فقال: جميلة بنت عبد الله بن أبيّ بن سلول، وكناها مقاتل، فقال: أمّ حبيبة بنت عبد الله بن أبيّ. وقال آخرون: إنما هي جميلة أخت عبد الله بن أبيّ، وروى يحيى بن سعيد عن عمرة روايتين: إحداهما: أنها حبيبة بنت سهل. والثانية: سهلة بنت حبيب. وهذا الخلع أول خلع كان في الإسلام. والخوف في الآية بمعنى:العلم. والحدود قد سبق بيان معناها.

ومعنى الآية: أن المرأة إذا خافت أن تعصي الله في أمر زوجها لبغضها إياه، وخاف الزوج أن يعتدي عليها لامتناعها عن طاعته جاز له أن يأخذ منها الفدية، إذا طلبت ذلك."

(تفسير ابن الجوزي، ج: 1، ص: 203، ط: دار الكتاب العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

 (قوله: ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقًا لايحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانًا واجب ديانة، لكن لايدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى، ولم يقدروا فيه مدةً،ويجب أن لا يبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها، قال في النهر: في هذا الكلام تصريح بأن الجماع بعد المرة حقه لا حقها اهـ. قلت: فيه نظر بل هو حقه وحقها أيضا، لما علمت من أنه واجب ديانة قال في البحر: وحيث علم أن الوطء لايدخل تحت القسم، فهل هو واجب للزوجة؟ وفي البدائع: لها أن تطالبه بالوطء؛لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرةً، والزيادة تجب ديانةً لا في الحكم عند بعض أصحابنا، وعند بعضهم تجب عليه في الحكم". 

(کتاب النکاح،باب القسم بین الزوجات، ج:3،ص:201،ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144406100746

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں