بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی نیت سے کہنا کہ تم چلی جاؤ


سوال

 ہم دونوں میاں بیوی کے درمیان بہت مرتبہ جھگڑا ہوا اور پانچ مرتبہ غالباً میری بیوی نے مجھ سے طلاق صریح کا مطالبہ کیا کہ مجھے اپنے گھر چھوڑ دو مجھے طلاق دے دو تو میں نے اس کے طلاق کے مطالبہ پر کہا کہ ٹھیک ہے تمہیں جانا ہے تو جاؤ یا تم جا سکتی ہو،اور ان الفاظ کی ادائیگی کے وقت میری طلاق کی نیت تھی، اور یہ ‌میں نے پانچ  مرتبہ سے زیادہ ‌الگ الگ موقعہ پر اپنی بیوی کے طلاق کے مطالبہ کے جواب میں کہا ،اور طلاق کے مطالبہ کو قبول کرنے کے جواب میں بیوی نے یہ بھی کہا ہمارا اور تمہارا کوئی رشتہ نہیں ہے ،تو کیا اس سے طلاق واقع ہوگئی یا نہیں ؟ اوراگر  طلاق ہوئیں ہیں تو کتنی ہوئیں ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی بیوی کے طلاق کے مطالبہ پر جب اسےیہ کہا کہ "تم جاؤیا تم جاسکتی ہو"،تو  پہلی دفعہ یہ جملہ کہنے سے  بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی ،میاں بیوی کا نکاح ختم ہوچکاتھا اوربیوی شوہر کے نکاح سے نکل چکی تھی،اس کے بعد جتنی دفعہ بھی مذکورہ جملہ کہاہے،اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیوں کہ بائن طلاق کے ساتھ بائن لاحق نہیں ہوتی،طلاق کے بعد میاں بیوی کا اکھٹا رہنا شرعاً ناجائز اور حرام تھا،اس پر دونوں کو صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے،البتہ اگر میاں بیوی دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ دوشرعی گواہوں کی موجودگی میں تجدیدنکاح ضروری ہوگا،اور آئندہ شوہر دوطلاقوں کا مالک ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو قال لها اذهبي أي طريق شئت لا يقع بدون النية وإن كان في حال مذاكرة الطلاق وفي المنتقى لو قال لها اذهبي ألف مرة ونوى الطلاق يقع الثلاث وفي مجموع النوازل لو قال لها اذهبي إلى جهنم ونوى الطلاق يقع كذا في الخلاصة."

(كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق،ج: 1، ص: 376، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة ولذا تقبل بينتها على الدلالة لا على النية إلا أن تقام على إقراره بها عمادية، ثم في كل موضع تشترط النية فلو السؤال بهل يقع بقول نعم إن نويت، ولو بكم يقع بقول واحدة ولا يتعرض لاشتراط النية بزازية."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات ،ج: 3، ص: 302، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: اخرجي اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك قيد باقتصاره على اذهبي لأنه لو قال: اذهبي فبيعي ثوبك لا يقع، وإن نوى، ولو قال: اذهبي إلى جهنم يقع إن نوى كذا في الخلاصة، ولو قال: اذهبي فتزوجي وقال: لم أنو الطلاق لم يقع شيء لأن معناه تزوجي إن أمكنك وحل لك كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات في الطلاق، ج: 3، ص : 326، ط: دار الكتاب الاسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) يلحق البائن (البائن) إذا أمكن جعله إخبارا عن الأول كأنت بائن بائن، أو أبنتك بتطليقة فلا يقع لأنه إخبار فلا ضرورة في جعله إنشاء، بخلاف أبنتك بأخرى أو أنت طالق بائن، أو قال نويت البينونة الكبرى لتعذر حمله على الإخبار فيجعل إنشاء، ولذا وقع المعلق كما قال (إلا إذا كان) البائن (معلقا بشرط) أو مضافا (قبل) إيجاد (المنجز البائن) كقوله: إن دخلت الدار فأنت بائن ناويا ثم أبانها ثم دخلت بانت بأخرى لأنه لا يصلح إخبارا."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات ،ج: 3، ص: 310، ط: سعيد)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"سوال :زید نے غصے کی حالت میں متعدد دفعہ اپنی بیوی کو یہ کہا کہ ’’میرے یہاں سے نکل جا‘‘۔

جواب:صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے بہ نیت طلاق کلمہ مذکورہ کہا ہے تو اس کی زوجہ پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ،بلانکاح رجعت اس میں درست نہیں ہے،عدت کے بعد وہ عورت دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔"

(فتاوی دار العلوم دیوبند، کتاب الطلاق، ج: 9،ص: 252، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں