بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے دور رہنے سے طلاق واقع ہونے کا حکم / ’’ایلاء‘‘ کی تعریف و حکم


سوال

بیوی سے کتنا عرصہ دور رہنے سے شرعی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی مراد بیوی سے مطلقاً دور رہنا ہے تو شرعاً اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی؛ کیوں کہ طلاق کا تعلق طلاق کے  مخصوص لفظ کے ساتھ ہے ۔

اور اگر سائل کی مراد بیوی سے صحبت (جسمانی تعلق قائم) نہ کرنے کی قسم کھانا ہے تو شرعی اصطلاح (زبان) میں اس کو ’’ایلاء‘‘ کہتے ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ:

اگر شوہر چار مہینے یا اس سے زیادہ بیوی سے دور رہنے کی قسم کھائے تو شرعاً ’’ایلاء‘‘ منعقد ہوجاتا ہے، اس کے بعد اگر چار مہنوں کے اندر اندر شوہر اپنی بیوی سے صحبت کرے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوجائے گا، البتہ بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اگر شوہر اپنی بیوی سے صحبت نہ کرے یہاں تک کہ چار مہینے مکمل گزر جائیں تو بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی، شوہر پر کوئی کفارہ وغیرہ لازم نہیں ہوگا۔

اگر شوہر  چار مہینوں سے کم مدت تک بیوی سے صحبت نہ کرنے کی قسم کھائے تو اس سے شرعی ’’ایلاء‘‘ منعقد نہیں ہوگا، لہذا اگر وہ مبینہ مدت کے اندر اندر بیوی سے صحبت کرے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوجائے گا، اور اگر وہ صحبت نہ کرے یہاں تک کہ وہ مدت گزر جائے تو  بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی، اور  شوہر بھی قسم سے بری ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ یہ ایک اصولی جواب ہے، اس کو پیش آمدہ مسئلہ پر  منطبق کرنے میں غلطی کا قوی امکان ہے، لہذا جو صورتِ حال درپیش ہے وہ تفصیل سے لکھ کر  دوبارہ سوال پوچھا جائے تاکہ اس کی روشنی میں حتمی جواب دیا جاسکے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية...وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه."

(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص:231، ط: سعيد)

فیہ ایضاً:

"(هو) لغة اليمين. وشرعا (الحلف على ترك قربانها) مدته...وركنه الحلف (وشرطه محلية المرأة) بكونها منكوحة وقت تنجيز الإيلاء ...(وأهلية الزوج للطلاق)...(وحكمه وقوع طلقة بائنة إن بر) ولم يطأ (و) لزم (الكفارة...(إن حنث) بالقربان...(و) المدة (أقلها للحرة أربعة أشهر، وللأمة شهران) ولا حد لأكثرها، فلا إيلاء بحلفه على أقل من الأقلين.

(قوله: إن حنث بالقربان) أي الوطء حقيقة.

(قوله: فلا إيلاء) أي في حق الطلاق بدائع: أي لا في حق الحنث، فلو قال لحرة والله لا أقربك شهرين، ولم يقربها فيهما لم تطلق، ولو قربها فيهما حنث."

(كتاب الطلاق، باب الإيلاء، ج:3، ص:424، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101431

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں