بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرکے قبضہ دینے کے بعد وہی جائیداد کچھ بیٹوں کو وصیت کرنے کا حکم


سوال

1:ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں اور والدین حضرات بھی حیات ہیں ،والدین نےتقریباً 15 یا 17 سال پہلے ہم سات بہن بھائیوں کے درمیان ایک جائیداد  کھیت کی شکل میں "للذكر مثل حظ الأنثيين"  کے تحت تقسیم کردی تھی،اس تقسیم میں والد صاحب نے ہمارے ایک بہنوئی کو بٹوارہ کرنے کے لیے فیصل مقرر کیا تھا،اس کے علاوہ گھر صرف ہم چار بھائیوں کے درمیان تقسیم کیا تھا،اس میں ہماری بہنوں کو ہمارے بہنوئی نے یہ کہہ کر حصہ نہیں دیا کہ " گھر کی زمین ہے ہی کتنی کہ اس میں بہنوں کو بھی حصہ دیا جائے" اور  کھیت اور گھر کی مذکورہ طریقہ پر تقسیم ہمارے بہنوئی نے ہمارے والد صاحب کی اجازت سے کی تھی،تو کیا بہنوئی کا والد کی اجازت سے ہماری بہنوں کی طرف سے گھر کے حصہ سے دست بردار ہونا شرعاً معتبر ہے یا نہیں ؟ اور اگر معتبر نہیں ہے تو اب 2022 میں جب سب بھائیوں نے گھر بنالیے ہیں تو اس کی ادائیگی کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اگر کوئی دینے کے لیے تیار نہ ہو تو  صرف میرے ذمے ان کی ادائیگی کی کیا شکل ہوسکتی ہے ؟ اور کیا میں کسی ایک یا دو کا انتخاب کرسکتا ہوں؟اور سب بھائی اپنے اپنے حصوں ( گھر ،کھیت ) پر قابض ہوچکے ہیں ،جب کہ بہنیں قا بض نہیں ہوئیں ؛کیوں کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں رہتی ہیں۔

2: 1989 میں ایک دکان بک رہی تھی ،تو بڑے بھائی نے خود اکیلے میں دس ہزار بیعانہ دے کر  45000 ہزار میں وہ دکان خرید لی تھی  او رباقی رقم خود ہی قسطوں میں ادا کی اور زمین کا پنچ نامہ والد صاحب کے نام پر ہی کروایا تھا اور بڑے بھائی اور سب کی نیت یہی تھی کہ  دکان والی زمین میں سب کا حصہ ہے،بڑے بھائی نے سب کو دینے کا بولا بھی تھا،تو کیا اس طرح کی نیت سے یا عرف کی وجہ سے کہ بڑے بھائی کو باپ کے درجہ میں مانتے ہیں اور اگر وہ کوئی چیز خریدے تو سب کا حصہ ہوتا ہے ،شرعاً اس کی کیا حقیقت ہے ؟ کیا اس میں سب کا حصہ ہوتا ہے؟جب یہ دکان خریدی تھی تو سب مشترک تو رہتے تھے ،لیکن ہر ایک کی الگ الگ کمائی تھی ،کمائی ایک جگہ جمع نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کمائی لا کر والد کو دیتے تھے۔

جب گھر اور کھیت کی زمین تقسیم ہورہی تھی تو اس وقت بڑے بھائی نے اس دکان کی تقسیم یہ کہہ کر مؤخر کردی کہ ابھی اس میں بہت قرض باقی ہے ،کاروبار کی وجہ سے بڑے بھائی کے ذمہ بہت قرض آگیا تھا،پہلے یہ دکان بڑے بھائی نے کرایہ پر دی ہوئی تھی ،بعد میں چھوٹے بھائی نے کرایہ داروں کو نکال دیا اور خود اس پر قابض ہوگئے اور یہاں سبزی کی دکان چلانے لگےاور بڑے بھائی سے اس بارے میں اجازت نہیں لی تھی ،بلکہ ان کی اجازت کے بغیر یہ استعمال کررہے تھے،پھر جب 2020 میں بڑے بھائی جو پہلے شہر میں رہتے تھے،اپنی فیملی کے ساتھ واپس گاؤں میں رہنے کے لیےآئے اور اس دکان میں کچھ تعمیری کام کروا کر یہاں ریڈی میڈ بچو ں کے کپڑے کھولنے کا ارادہ کیااور بجلی کا نیاکنیکشن بھی اپنے نام سے لیا تو اب سب اس دکان کے بٹوارہ کا مطالبہ کرنے لگے تو کیاان کو اس دکان میں حصہ کامطالبہ  کرنے کا حق ہے؟

یہ دکان بڑے بھائی نے جس سے خریدی تھی ،کاغذات میں انہی کے نام تھی جو بعد میں ان کے کسی وارث کے نام ہوگئی تھی،تو ان لوگوں نے اس دکان پر اور اسی طرح آس پاس کی کئی دکانوں پر کیس کردیا تھا کہ یہ دکانیں ہماری ہیں ،ان لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے،ان کو امید تھی کہ اس طرح انہیں کچھ پیسہ مل جائے گا تو بڑے بھائی نے اس دکان کو دوبارہ اس شخص ( جس سے 1989 میں یہ دکان خریدی تھی )کے وارثوں سے 2020 میں سات لاکھ روپے دے کر اپنے نام بیع نامہ کروالیا،توبڑے بھائی نے  ایک بار 45 ہزار روپے 1989 میں اس شخص کو دیئے تھے اور سات لاکھ روپے اب 2020 میں اس کے وارث کو دینے پڑے،نیز دکان اپنے نام بیع نامہ کروانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس شخص کے وارثوں میں سے ایک شخص نے دوسرے کو یہ دکان بیچنے کی دھمکی دی تھی اور تیسری وجہ یہ تھی کہ چھوٹا بھائی جو اس دکان پر قابض تھااس کو اپنے نام کرنا چاہتا تھا ،چوں کہ بجلی کا کنیکشن اس کے نام تھا اور کیس کا نوٹس بھی اس کے نام آیا تھا اور تحصیل دار کی اس بات کہ دو چار تاریخ چلیں گے ،دکان آپ کے نام ہوجائے گی ،اس وجہ سے اسے امید تھی کہ دکان اس کے نام ہوجائے گی اور اس کا اظہار بھی کیا تھا کہ دکان میرے نام ہوجائے پھر بتاتا ہوں۔

3: بڑے بھائی کے نام سے 1991 میں گھر کے لیے بجلی کا کنیکشن لیا گیا اور بجلی چاروں بھائی استعمال کرتے رہے ،لیکن کسی ایک بھائی نے بھی کبھی بل نہیں بھرا،بل کی وجہ سے بہت زیادہ قرضہ ہوگیا جو ایک بھائی بھی اتارنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ جس کے نام سے کنیکشن ہے وہی اس کو ادا کرے گا،اسی طرح مختلف اوقات میں کاروبار کرنے سے بڑےبھائی پر بہت سا قرض چڑھ گیا تھا، جب گھر اور کھیت کے بٹوارہ میں قرض کی بات آئی تو کھیت میں قرض کے بدلے زمین دی جارہی تھی کہ زمین قرض کی قیمت کے مطابق لے لو اور سارا قرضہ بھی آپ کے ذمہ ،لیکن بھائی نے منع کردیا۔

4: جب بڑے بھائی نے دکان کے لیے بجلی کا نیا کنیکشن لیا تو سب سے چھوٹے بھائی (جو دکان پر قابض تھے )نے پورے گھر والوں اور کچھ رشتہ دار اور والد صاحب کے کان بھر کر" ساری جائیداد اور وہ زمین بھی جو بہنوں کے حصہ میں آئی تھی "والد کو تحصیل لے جاکر اپنے تین بھائیوں کے نام 17/6/2020 کو وصیت کروالی اور بڑے بھائی کو عاق کروادیا( دو کھیت ہیں، ایک بھائیوں کا حصہ وہ تقریباً 72 یا 75 بسہ ہے اور 40 بسہ بہنوں کا حصہ ہے) وصیت کے بعد کئی دن تک بڑے بھائی  والد صاحب سے ملاقات کرتے رہے اور دیگر کئی لوگوں نے بھی معاملہ حل کرنے کی کوشش کی کہ والد صاحب وہ وصیت ختم کردیں اور سب برابر برابر حصہ لے لیں ،لیکن سب سے چھوٹے بھائی نے سب مشکل کردیا اور لوگوں سے جھگڑا بھی کیا کہ تم لوگوں کو ہمارے معاملہ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے،اس کے بعد چھوٹے بھائی اور گھروالوں کو دکان میرےاپنے نام کروانے کا علم ہوا تو جو بھائیوں کے حصہ میں آئی ہوئی کھیت کی زمین جو 72 یا 75 بسہ تھی ،اس  میں سے پانچ بسہ 22/01/2021 کو والد صاحب سے 35 لاکھ میں فروخت کروا کر ا ن تین بھائیوں کے نام ہبہ رجسٹراری کروالی اور وہ دیگر جائیداد اور بہنوں کے حصہ والی زمین کے بارے میں کی گئی وصیت بھی ابھی بھی باقی ہے، تو اب شرعی راہ نمائی فرمائیں کہ دکان والی زمین میں دیگر بھائیوں کا بھی حصہ ہے یا نہیں ؟ اگر ان کا حصہ ہے تو قرض میں بھی ان کا حصہ ہے یا نہیں ؟ اور والد صاحب کے کسی کے کہنے کی وجہ سے وصیت ،ہبہ رجسٹراری اور ایک بیٹے کو عاق کرنا شرعاً صحیح ہے یا نہیں ؟ اور جو زمین چار بھائیوں کی ہے اس پر تین بھائیوں کاقبضہ کرنااور اسے  فروخت کرکے پیسہ استعمال کرنا کیسا ہے؟ 

جواب

1:واضح رہے کہ والدین اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں سے جو کچھ  اپنی اولاد میں تقسیم کرتے ہیں  اس کی حیثیت  ہبہ کی ہوتی ہے، اور ہبہ کے حوالے سے شریعتِ مطہرہ نے والد ین کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اولاد میں برابری کریں، یعنی جتنا بیٹے کو دیں اتنا ہی بیٹی کو دیں اور تمام اولاد کے درمیان عدل اور مساوات سے کام لیں ،کسی معقول شرعی عذر کے بغیر کسی کو کم اور کسی کو زیادہ، یا کسی کو دینے اور کسی کو محروم رکھنے کا اختیار نہیں دیا ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اولاد کے درمیان  ہبہ کرنے میں برابری کا حکم دیا ہے ،حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: أكل ولدك نحلت مثله؟ قال: لا قال: فأرجعه. وفي رواية قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم." 

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الهبة، باب العطایا، 261/1، ط:قدیمي)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف كرو۔"

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنے داماد کے ذریعہ اپنی اولاد کے درمیان اس طرح جوتقسیم کی ہے کہ کھیت کی زمین میں ہر بیٹے کو بیٹی سے دگنا حصہ دیا ہے اور گھر کی زمین  صرف بیٹوں میں تقسیم کی ہے ، بیٹیوں کو اس میں سے حصہ نہیں دیا ہے  تو سائل کے والد کی یہ تقسیم شرعاً ناانصافی پر مبنی ہے جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوئے ہیں ،انہیں چاہیے کہ جتنی زمین ایک بیٹے کو دی ہے اتنی ہی زمین ہر ایک بیٹی کو بھی دے دیں یا اس قدر نقد رقم ہر ایک بیٹی کو دے دیں ،البتہ اگراس وقت تقسیم کے بعد انہوں نے ہر ایک بیٹے اور بیٹی کا حصہ الگ کرکے ہر ایک کو  اس کے حصے پر  قبضہ دے دیا تھا تو یہ چوں کہ ہبہ کا معاملہ تھا جو قبضہ سے مکمل ہوجاتا ہے ،لہذا ہر ایک اپنے حصے کا مالک بن گیا تھااور والد کی ملکیت ختم ہوگئی تھی ،اگرچہ وہ زمین کاغذات میں والد کے نام رہی ہو، یاد رہے کہ  اگرتقسیم کے وقت اس جائیداد میں سے ہر ایک بیٹے اور بیٹی کا حصہ  الگ الگ کرکے اسے دےدیاگیا تھا اور والد نے اپنا قبضہ ختم کردیا تھاتو  یہی ان افراد کی طرف سےاپنےحصے پر قبضہ شمار ہوگا،لہذا  اگر بیٹیوں کو ان کا حصہ الگ الگ کرکے دےدیا تھااور والد نے اپنا قبضہ ختم کرکے ان کو تصرف کا اختیار دے دیا تھا تو ان کی طرف سے اپنے حصے پر قبضہ پایا گیا ہے اور وہ اپنے حصے کی مالک بن چکی ہیں ،لیکن اگر بیٹیوں کو اس طرح قبضہ نہ دیا ہو صرف زبانی کہا ہو تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا تھا لہذا  والد کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر حصہ دے کر قبضہ بھی دے دیں،ورنہ صرف بیٹوں کو دے کر بیٹیوں کو محروم رکھنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوں گے اور اگر تقسیم کے وقت کوئی اولاد نابالغ تھی تو صرف  والد کی طرف سے تقسیم سے زبانی  ہبہ سے ہی وہ اپنے حصے کے مالک بن چکی ہے۔

2:  بڑے بھائی نے جو مذکورہ دکان اپنی ذاتی رقم سے والدین اور سب بہن بھائیوں کی نیت سے خریدی تھی تو یہ ہبہ کا معاملہ تھاتواگر خریدنے کے بعد ہر ایک کو اس کے حصے پر  قبضہ نہیں دیا تھا توہبہ مکمل نہیں ہواتھااور  وہ اس کے مالک نہیں بنے تھے ،بلکہ بڑا بھائی ہی اس دکان کا مالک تھااور جب بڑا بھائی ہی اس دکان کا مالک ہے اور اسے ہر قسم کے تصرف کا حق حاصل ہے ،دیگر بھائیوں کو اس میں سے حصے کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے ،ملحوظ رہے کہ یہ بات کہ "بڑا بھائی والد کی مثل ہونے کی وجہ سے اس کے مال میں دیگر بھائی بہن شریک ہوں گے "تو اس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ،بلکہ بڑا بھائی ہی اپنی ذاتی کمائی کا اکیلا مالک ہوتا ہے،دیگر بھائی بہن کااس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا،نیز ابھی بڑے بھائی کے مذکورہ دکان کو کاغذات میں اپنے نام کرانے پر بائع کی اولاد نے جو مزید رقم اس سے لی تھی تو یہ رقم لیناان کے لیے شرعاً جائز نہیں تھا ،ان پر لازم ہے کہ وہ مذکورہ رقم اس  دکان خریدنے والے کو واپس کردیں ۔

3: بڑ ےبھائی کے نام سے جو بجلی کا کنیکشن لیا گیا تھا اور سب بھائی بجلی استعمال کرتے رہے اور جو بل آیا ہے وہ ادا نہیں کررہے تو ان کا یہ فعل درست نہیں ،انہوں نے جب بجلی استعمال کی ہے تو ان پر اپنے حصے کا بل ادا کرنا لازم ہے،باقی بڑے بھائی کے ذمہ جو کاروبار کی وجہ سے قرض ہے اس کی ادائیگی اسی پر ہی لازم ہے۔

4:والد صاحب کے لیے  مذکورہ کھیت اور گھراپنی اولاد کو  ہبہ کرنے اور قبضہ دینے کے بعد اب انہی کھیتوں کے بارے میں صرف تین بیٹوں کے حق میں وصیت کرنا اور پھرفروخت کرکے ہبہ رجسٹراری کرانے کا اختیار نہیں ہے اوراس سے وہ زمین صرف ان تین بیٹوں کی ملکیت نہیں بنے گی ،بلکہ وہ افراد جن کو پہلے یہ زمین ہبہ کرکے قبضہ دے دیا تھا وہی اس کے مالک رہیں گے،نیز  شرعاً والد کا اپنے بیٹوں کے لیے وصیت کرنا بھی باطل ہے،شریعت نے وارث کے لیے وصیت کو ناجائز قرار دیا ہے اور اسی طرح کسی شخص کا اپنے کسی وارث کو اپنی زندگی میں عاق کرنے کی شرعی کوئی حیثیت نہیں ہے،اس سے میراث میں اس کا حصہ ختم نہیں ہوگا،لہذا مذکورہ بیٹا اگر والد کے انتقال کے وقت زندہ ہوگا تو وہ اپنے والد کا وارث بنے گا اور اپنے حصہ کا حق دار ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضله علی غیرہ." 

(كتاب الهبة ، الباب السادس فى الهبة للصغير، 391/4، ط: مكتبة رشيدية)  

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة،  690/5،ط : سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(كتاب الهبة،الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، 378/4، ط:  رشیدیة) 

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"[ ‌‌(المادة 87) الغرم بالغنم]:الغرم بالغنم هذه المادة مأخوذة من المجامع وهي عكس المادة (85) أي أن من ينال نفع شيء يجب أن يتحمل ضرره مثلا أحد الشركاء في المال يلزمه من الخسارة بنسبة ما له من المال المشترك كما يأخذ من الربح."

(المقالة الثانية في بيان قواعد الکلیة الفقھیة،المادۃ: الغرم بالغنم،90/1،ط: دار الجیل)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."

ترجمہ:" حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔"

(كتاب البيوع ،باب الغصب والعارية، الفصل الأول،254/1، ط:قديمي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں