بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو رحمن ، رزاق، یا سبحان کہہ کر پُکارنا


سوال

کیا مجھے گناہ ملے گا اگر میں نے کسی اور کو رحمن رزاق یا سبحان کہتے سن لیا تو؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے  صفاتی ناموں کی دو قسمیں ہیں:ایک  وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، قرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے مثلاً:”رحمان،خالق، رزاق، قدوس، صمد، قیوم، باری،غفار،متکبر، قہار، احد، ذوالجلال والاکرام“ وغیرہ ،   ان کا حکم یہ ہے کہ  اگر یہ نام ”عبد“ کی اضافت کے ساتھ  رکھے جائیں تو جائز ہے، اور اگرعبد کی اضافت کے بغیر رکھے جائیں تو جائز نہیں ہے۔

دوسرے  وہ صفاتی نام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہیں، مثلاً:سمیع ، بصیر، رحیم، علیم، روٴف، رشید ، جمیل ، اکرم، مالک، ماجد، رافع، باسط، قائم، معطی وغیرہ ،  یہ نام ”عبد “ اضافت کے بغیر بھی رکھے جاسکتے ہیں،البتہ  اس قسم کے ناموں کے رکھنے کی صورت میں یہ ضروری ہے کہ ان ناموں کے وہ معنیٰ مراد نہ لیے جائیں جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہیں،مثلاً: اللہ تعالیٰ کا ان صفات سے متصف ہونا  کامل، ذاتی اور نقص سے خالی ہے اور مخلوق کے اندر یہ معنیٰ عطائی اور نقص والے ہیں، مطلب یہ کہ ان ناموں کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لیے ہو گا تو اس کے خاص معنیٰ ہوں گے اور اگر ان ناموں کا استعمال بندوں کے لیے ہو گا تو ان کے معنیٰ اور ہوں گے۔

لہٰذامذکورہ بالا تفصیل کے پیشِ نظر اگر آپ کی مراد اس سوال سے یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو رحمن ، رزاق، یا سبحان کہہ کر بُلائے تو اس کا کیا حکم ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ رحمن اور رزاق چونکہ اللہ تعالیٰ کے ایسے صفاتی نام ہیں ، جو اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ ہی خاص ہیں ، لہٰذا ان دونوں ناموں سے کسی شخص کو " عبد " کی اضافت کے بغیر بُلانا جائز نہیں ہے،اور اگر کوئی اس طرح کسی کو پُکارے تو  اگر استطاعت اور طاقت ہو تو اسے اس طرح پکارنے سے منع کردینا چاہئے، منع کردینے سے آپ بری الذمہ ہوجائیں گے۔

تفسیرالطبری میں ہے:

"وكان لله جل ذكره أسماء قد حرم على خلقه أن يتسموا بها، خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل "الله" و "الرحمن" و "الخالق"؛ وأسماء أباح لهم أن يسمي بعضهم بعضاً بها، وذلك: كالرحيم والسميع والبصير والكريم، وما أشبه ذلك من الأسماء ، كان الواجب أن تقدم أسماؤه التي هي له خاصة دون جميع خلقه، ليعرف السامع ذلك من توجه إليه الحمد والتمجيد، ثم يتبع ذلك بأسمائه التي قد تسمى بها غيره، بعد علم المخاطب أو السامع من توجه إليه ما يتلو ذلك من المعاني".

(تفسير الطبري جامع البيان: سورة الفاتحة، (1/ 133) ط: مؤسسة الرسالة)

  مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے:

’’ عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان " . رواه مسلم ‘‘۔

(مشکوۃ المصابیح، باب الامر بالمعروف، ص:۴۳۶،ط:قدیمی)

’’ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ  وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم میں سے جو شخص کسی خلافِ شرع امر کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اس چیز کو اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالے اور اگر وہ( خلافِ شرع امر کے مرتکب کے زیادہ قوی ہونے کی وجہ سے یا بزورِ طاقت روکنا خلافِ مصلحلت ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کے ذریعہ )اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے  اور اگر اس کی بھی  طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کو دل سے برا جانے  اور یہ (آخری درجہ) ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے‘‘۔

(ترجمہ از:مظاہر حق،جلد چہارم ، ص:۶۰۴،ط:دارالاشاعت)

علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں لکھتے ہیں:

’’ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ برائیوں کے پھیلنے سے روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی جو ذمہ داری اہلِ ایمان پر عائد ہوتی ہے اس سے عہدہ برآ،ہونے کے تین درجے بیان کیے گئے ہیں: پہلا درجہ یہ ہے کہ ہر برائی کا سر طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے بشرطیکہ اس طرح کی طاقت میسر ہو اور اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو روکنے کا فریضہ زبان کے ذریعہ ادا کیا جائے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر زبان کے ذریعہ بھی کسی برائی کی مذمت کرنے اور اس کو ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر دل سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے۔ یعنی کسی خلافِ شرع امر کو دیکھ کر اسے دل سے برا جانے ... بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حدیث میں پہلے حکم (یعنی برائی کو ہاتھ کے ذریعہ مٹانے) کا تعلق ان اہلِ ایمان سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے طاقت و اقتدار سے نوازا ہے یعنی بادشاہ و حاکم وغیرہ، چنانچہ طاقت و اقتدار رکھنے والے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر و اقتدار میں سختی و شدت کے ساتھ برائیوں کی سرکوبی کریں اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں، دوسرے حکم (یعنی برائی کو زبانی مذمت اور تلقین و نصیحت کے ذریعہ ختم کرنے) تعلق علماء کی ذات سے ہے ۔ یعنی یہ اہلِ علم اور واعظین کا فریضہ ہے کہ وہ جن برائیوں کو دیکھیں اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کی مذمت کریں اور عوام کو تلقین و نصیحت کے ذریعہ ان برائیوں سے روکیں، اور تیسرے حکم (یعنی برائیوں اور ان کے مرتکبین کے خلاف دل میں نفرت کا جذبہ رکھنے کا تعلق عام مسلمانوں سے ہے ، چنانچہ عام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خلافِ شرع امور کو دیکھ کر محض اعراض و بے اعتنائی کا رویہ اختیار نہ کریں، بلکہ ان امور کو دل سے برا جانیں اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قلبی نفرت رکھیں...الخ‘‘۔

(مظاہر حق،جلد چہارم ، ص:۶۰۴،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401100258

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں