بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تنسیخِ نکاح


سوال

میری ایک لڑکی سے  نکاح کی بات پکی ہوئی ہے۔  اس لڑکی نے عدالت سے خلع لیا ہے۔ اس عدالتی خلع کی تفصیل یہ ہےکہ :

...کا نکاح ...سے ہوا۔  نکاح کے وقت رخصتی نہیں ہوئی، بلکہ یہ طے ہوا کہ چند ماہ  بعد رخصتی ہوگی۔ اس دوران لڑکی والوں کو یہ معلوم ہوا کہ لڑکا بے روزگار ہے کوئی کام نہیں کررہا۔  لڑکی والوں نے لڑکے سے اس بارے میں بات کی اور اسے کام کرنےپراصرار کیا۔ اور اس کی مالی طور پر مدد بھی کی؛ تاکہ وہ کوئی کام کرسکے اور رخصتی کرنے میں لڑکے کو آسانی ہو،  لیکن لڑکے نے کسی کام میں کوئی دل چسپی نہیں لی، بلکہ دن بہ دن اور زیادہ  بگڑتا گیا۔ اور لڑکی والوں کا مقروض بھی ہوگیا۔ لڑکے کے اس طرح کے مستقل برے رویہ سے تین سال تک رخصتی نہ ہوسکی۔  جس کی وجہ سے لڑکی ذہنی اذیت میں مبتلا رہی۔  لڑکی والوں نے لڑکے کے اس برے رویہ  کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ کیا،  لیکن لڑکے نے طلاق دینے سے بھی انکار کردیا ۔ اس طرح لڑکی بیچ میں ہی پھنس گئی کہ نہ تو لڑکا نان نفقہ پر قادر ہے کہ رخصتی کر کے لے جائے اور نہ وہ  طلاق دے کر اس کی جان چھوڑرہا ہے۔ اس صورتِ حال میں لڑکی نے نکاح ختم کروانے کےلیے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت میں "تنسیخِ نکاح بذریعہ خلع"  کا مقدمہ دائر کیا۔  عدالت نے شوہر کو حاضر ہونے کے لیے کئی حکم نامے جاری کیے۔ آخری حکم نامہ اخبار "روزنامہ امت "  (2018-11-13 ) میں بھی چھپا۔ لیکن شوہر حاضر نہیں ہوا۔ عدالت نے اپنی کاروائی مکمل کرکےتنسیخ نکاح کا فیصلہ کردیا۔

اب آپ حضرات سے یہ معلوم کرنا ہے کہ اس عدالتی خلع کی شرعی حیثیت کیا ہے؟  کیا اس خلع کے بعد یہ عورت  کہیں اور نکاح کر سکتی ہے؟اور کیا میرا نکاح اس سے ہوسکتا ہے؟

وضاحت : 

1)  لڑکا ذریعہ معاش پر قادر نہیں تھا،  لڑکے کا کہنا یہ تھا میں عارضی طور پر رخصتی کر  کے دوست  کے گھر پر رکھوں گا۔

2) والدین یہ چاہتے تھے کےلڑکا نان نفقہ پہ قادر ہوجائے، لیکن ایسا نہیں ہوا، والدین نے مالی تعاون کیا، لیکن مالی تعاون کو بھی برباد کردیا۔ اور ابھی بھی وہ لڑکا نان نفقہ پر قادر نہیں ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر لڑکا نفقہ دینے پر قادر نہیں تھا تو لڑکی کے اولیاء کو کفاء  ت (ہم سری)  نہ ہونے  کی بنیاد پر تنسیخِ   نکاح کا حق حاصل تھا؛  لہذا مذکورہ عدالتی خلع تنسیخ  نکاح کے حکم میں ہے اور معتبر ہے،  لیکن تنسیخِ  نکاح کا عدالتی فیصلہ بھی اس وقت معتبر ہے  جب شوہر نے بوقتِ  نکاح اپنا کفو ہونا ظاہر کیا ہو  اور  پھر اس کے خلاف ظاہر ہوا ہو۔مزید یہ کہ بیوی نے شرعی شہادت کے ذریعے شوہر کی نان ونفقہ پر عدم قدرت اور اور نہ رخصتی کرنا اورنہ طلاق دینا ثابت کیا ہو،  یعنی بیوی نے تنسیخ کے متعلق تمام شرعی ضوابط کی رعایت رکھی ہو۔

نوٹ : یہ حکم اس وقت ہے جب نکاح کے وقت لڑکی نابالغ ہو، اگر لڑکی بالغ تھی اور نکاح پر راضی ہوگئی تھی  تو شوہر کی اجازت کے بغیر خلع معتبر نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 90):

"(ومالا) بأن يقدر على المعجل ونفقة شهر لو غير محترف، وإلا فإن كان يكتسب كل يوم كفايتها لو تطيق الجماع."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں