اگرکوئی شخص اپنی بیوی سے لڑائی کے بعد کچھ عرصہ اپنے بیوی سے بات چیت بند رکھنے اور ناراض رہنے کے لیے یہ بولے کہ: "اب تم جو مرضی ہے کرو، میں تم کو نہیں پوچھوں گا، تم آزاد ہو، میرے ساتھ بات نہیں کرنی اور میری کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا، میں اپنا کام خود کر لوں گا، آپ کی ضرورت نہیں ہے ورنہ میں تم کو گھرسے نکال دوں گا" اور پھربیوی سے 2 ,3 ماہ بات نہ کرے، لیکن اس دوران اس کو خرچہ وغیرہ اور اس کی باقی ضروریات پوری کرتا رہے۔ تو کیا اس ناراضی سے یا ان الفاظ سے نکاح پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے؟ ان کلمات سے صرف ناراضی مقصود ہے، طلاق نہیں اور نہ ہی طلاق کا کوئی ارادہ ہے، طلاق کاتو کوئی خیال ہی نہیں تھا اور نہ ہے اور لڑائی بھی بات نہ ماننے اور میرا کام نہ کرنے پر ہوئی ہے، وضاحت فرمائیں!
اگر مذکورہ شخص کے ذہن میں یہ تھا کہ میرے کاموں سے آزاد ہو، میرے کام نہ کیا کرو تو اس صورت میں چوں کہ اس لفظ کا ایک استعمال کسی کو کسی ذمہ داری سے آزاد کرنا بھی ہے اور سائل کے کلام کا سیاق و سباق بھی اس کا احتمال رکھتا ہے لہذا اس صورت میں اس جملے سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 437):
"وأما في الديانة فهي معتبرة، حتى إذا نوى به الطلاق من وثاق لايقع ديانةً. اهـ. أقول: وكذا صرح بذلك في البحر و الأشباه، وعليه فالفرق بين الصريح والكناية أن الأول لايحتاج إلى النية في القضاء فقط و يحتاج إليها ديانة، والثاني يحتاج إليها فيهما، لكن احتياج الأول إلى النية ديانة معناه أن لاينوي به غير معناه العرفي، فلو نوى الطلاق من الوثاق: أي القيد لا يقع لصرفه اللفظ عن معناه. أما إذا قصد التلفظ بأنت طالق مخاطبًا به زوجته ولم يقصد به الطلاق ولا غيره فالظاهر الوقوع قضاء وديانة لأن اللفظ حقيقة فيه، وبدليل أنه لو صرح بالعدد لايدين كما لو نوى الطلاق عن العمل فيقع قضاءً و ديانةً."
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200223
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن