بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تم جانو اور ابو جانیں تم دونوں آزاد ہو، بیوی کو کہنا


سوال

 میرے اور میری بیوی کے درمیان فون پر بات ہوئی اس نے کہا میں والدین کے گھر جانا چاہتی ہوں، میں نے کہا کہ ابھی آپ کو آئے ہوئے  ایک ہفتہ ہوا ہے شبِ  قدر ہے،  میرے والدین کے ساتھ کر کے جاؤ، لیکن اس نے بات نہیں مانی اور میرے والد صاحب سے رابطہ کروا کر کہا کہ میں  جانا چاہتی ہوں، میں نے کہا: ٹھیک ہے تم جانو والد صاحب جانیں، تمھاری مرضی، میں اتنے دورپریس میں ہوں، ادھر  سے تمہیں روک نہیں سکتا ت،م جانو  ابو جانیں، تم دونوں آزاد ہو، تمھاری مرضی میں تم کو خرچہ بھیجنے کا پابند ہوں، پھر وہ میکےمیرے والد کے ساتھ چلی گئی، اور وہ اس کو چھوڑ کر واپس آگئے، پھر میں نے دو دن کے بعد فون کیا تو اس نے گھر آنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ تم نے مجھے یہ بات کہی ہے کہ تم آزاد ہو، اس لیے میں واپس نہیں آتی، کیا ایسےکہنے سے طلاق ہو جاتی ہے؟

جواب

بصدقِ واقعہ سائل کی گفتگو کے سیاق و سباق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائل نے مذکورہ الفاظ "  تم جانو ابو جانیں، تم دونوں آزاد ہو، تمہاری مرضی،  میں تم کو خرچہ بھیجنے کا پابند ہوں" سائل نے طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے؛ اس لیےنکاح بدستور قائم ہے، بیوی کی جانب سے مذکورہ گفتگو کو بنیاد بناکر شوہر کے گھر واپس آنے سے انکار کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں