بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم میراث کی ایک صورت


سوال

ہمارے محترم والد موسم خان  25 اپریل 2002 ء میں وفات پاگئے۔ ان کی ایک بیوی، 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں تھیں، جن میں سے ایک بیٹی کا 1994ء  میں انتقال ہوگیا تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ :

1 : میرے والد کی میراث ورثاء میں کیسے تقسیم ہوگی؟

2 : میری بہن جس کا والد کی زندگی میں انتقال ہوگیا تھا، اس کا ایک بیٹا ہے عبدالماجد خان، کیا اس کا والد کی وراثت میں حصہ ہے ؟

3 : میرے دادا کا انتقال 1960 میں ہوگیا تھا اور وہ پیچھے میرے والد، 4 چچا اور ایک پھوپھی کو چھوڑ گئے تھے۔ تقسیمِ وراثت کے لیے عبد الماجد خان (میری مرحومہ بہن کے بیٹا) کا نام میرے والد، 4 چچا اور ایک پھوپھی کے ورثاء کی فہرست میں ڈال دیا گیا ہے ۔اس قانون کے تحت جو ایوب خان نے بنایا تھا  ان بچوں کے لیے جن کے والدین، ان کے دادا، دادی، نانا، نانی سے پہلے وفات پاچکے ہوں تو کیا شرعی طور پر وہ ان میں سے کسی کا وارث ہے، حالاں کہ ہر ایک کی اپنی اولادیں ہیں۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں مرحوم کی جس بیٹی کا اس کی زندگی میں انتقال ہوگیا تھا اس کا مرحوم کی جائیداد میں بطورِ میراث حصہ نہیں ہے۔

مرحوم کی میراث کی شرعی تقسیم یہ ہے کہ مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کی ادائیگی کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت ہو تو اس کو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی حصہ میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی ماندہ ترکہ  کو 8  حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو ایک حصہ ، اس کے ہر بیٹے کو دو حصے اور زندہ بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔

یعنی سو روپے میں سے بیوہ اور زندہ بیٹی میں سے ہر ایک کو  12.50 روپے اور ہر بیٹے کو 25 روپے ملیں گے۔

2۔ مرحوم کے نواسے عبد الماجد کا مرحوم کے ترکہ میں حصہ نہیں ہے۔

3۔ عبد الماجد آپ کےوالد،  چچا اور پھوپھی  کا بھی شرعی طور پر وارث نہیں ہے،لہذا عبد الماجد کو ان کی جائیداد میں سے بطورِ میراث حصہ نہیں دیا جائے گا، تاہم اگر تمام ورثا عاقل و بالغ ہوں اور وہ عبد الماجد کو میراث میں سے کچھ دینا چاہیں تو یہ باعثِ ثواب ہے۔ فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں