بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم: بیوہ، ایک بیٹا اور چار بیٹیاں


سوال

میرے والد محترم فوت ہوگئے تو ترکے میں چار جریب زمین چھوڑ گئے اور ساتھ دس مرلے کا مکان جو آدھا میرے نام ہے، آدھا فوت شدہ بھائی کے نام ہے، فوت شدہ بھائی کی دو بیٹیا ں ہیں اور بیوہ میرے نکاح میں آگئی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میری چار بہنیں اور والدہ حیات ہیں اور  سابقہ بھابھی، جو کہ میری منکوحہ بن چکی ہے، چار جریب زمین کی وراثت کس طرح ہوگی؟  جب کہ دس مرلہ مکان تو میرے اور بھا ئی کے نام تھا، جو آبائی نہیں تھا، اس میں بھائی کی  دو بیٹیوں کا حصہ ہے یا بیوہ کا جب کہ بیوہ اب میری منکوحہ ہے؟

تنقیحات : 

آپ کے سوال میں مندرجہ ذیل امور کی وضاحت مطلوب ہے:

(۱)آپ کے بھائی کا انتقال والد کی حیات میں ہوا یا بعد میں؟(۲)دس مرلے کا جو مکان آپ اور آپ کے مرحوم بھائی کے نام ہے وہ آپ کے والد نے آپ دونوں کےنام کیا تھا؟ یا کسی اور ذریعہ سے آپ کی ملکیت میں آیا؟ اگر والد نے نام کیا تھا تو قبضہ بھی دے دیا تھا یا محض کا غذات میں نام کیا تھا؟(۳) والد کے انتقال کے وقت جو ان کے ورثہ حیات تھے ان کی مکمل تعداد(کتنے بیٹے اور کتنی بیٹیاں)لکھیں۔مندرجہ بالا امور کی وضاحت کے بعد ہی جواب دیا جاسکتا ہے۔

جواب تنقیح:

(۱) بھائی کی وفات والد سے پہلے ہوئی۔ (۲)دس مرلہ مکان آبائی نہیں،  چچا نے خریدا تھا گفٹ کے طور، مگر میرے اور بھائی کے حق میں پانچ پانچ مرلہ لکھا ہے ،  باقی ماندہ جائیداد پدری ہے،دس مرلہ مکان میرے اور فوت شدہ بھائی کے نام کاغذ میں بھی تھا اور قبضہ میں بھی دونوں ساتھ تھے ۔(۳)چار بہنیں زندہ ہیں،  والدہ حیات ہیں۔

جواب

آپ کے والد مرحوم کا ترکہ جو کہ چار جریب زمین کی صورت میں ہے تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے 48 حصے کرکے 6 حصے بیوہ  (آپ کی والدہ) کو، 14 حصے زندہ بیٹے کو اور 7 حصے ہر بیٹی کو ملیں گے، مرحوم کے جس بیٹے (یعنی سائل کے بھائی) کا انتقال مرحوم کی زندگی میں ہوگیا تھا اس کو مرحوم کے ترکے میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا، نیز دس مرلہ کا جو  مکان آپ کو اور آپ کے مرحوم بھائی کو چچا نے گفٹ دیا تھا اس میں سے آپ کے مرحوم بھائی کا حصہ (پانچ مرلہ) اس کا ترکہ ہے جو اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا ، جس کی صورت یہ ہے: اس کے  324 حصے کرکے ، 36 حصے اس کی بیوہ (جو کہ اب آپ کی منکوحہ ہے) کو ، 96 حصے اس کی ہر بیٹی کو، 54 حصے اس کی والدہ کو، 14  حصے  بھائی (آپ )کو اور سات حصے ہر بہن کو ملیں  گے۔فقط واللہ اعلم

نوٹ:  چوں کہ آپ کے مرحوم بھائی کا انتقال اپنے والد کی حیات میں ہوا تھا اس  لیے والد کا بھی اس کے ترکہ میں حصہ تھا جو کہ انتقال کے بعد ان کے ورثاء کو ملے گا، اسی ترتیب کے مطابق حصوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔


فتوی نمبر : 144104200773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں