بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم ترکہ، بیوہ، والد، 2 بیٹے ایک بیٹی


سوال

میرے شوہر کا انتقال 7 دسمبر 2019 کو انتقال ہوگیا ہے، ہمارے تین بچے ہیں،  بیٹی 7 سال کی، ایک بیٹا 5 سال کا اور دوسرا بیٹا 3 سال کا ہے،  میرے شوہر کا بزنس جو انہوں نے ہی سیٹ کا تھا، اب میرے  سسر سنبھال رہے ہیں،  سوال یہ ہے کہ کیا میرے سسر پر لازم ہے کہ جو کچھ بزنس میں ہو رہا ہے، اس سے مجھے بھی آگاہ کریں،  اور کیا مجھے اپنے مرحوم شوہر کے بزنس میں ڈسیژن  لینے کا حق ہے؟  اور اگر میرے سسر کو کچھ ہوجاتا ہے تو ان کے بعد اس بزنس کو کون ہینڈل کرے گا، جب تک میرے بچے بڑے نہیں ہوجاتے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ذمے اگر کوئی قرض ہے تو اسے ادا کرنے کے بعد اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے مابقیہ ترکے کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی  کل ترکہ کو  120 حصوں میں تقسیم کرکے 15 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 20 حصے مرحوم کے والد کو، 34،34 حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو، اور 17 حصے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے۔

یعنی سو روپے میں سے ساڑھے بارہ روپے مرحوم کی بیوہ کو، سولہ عشاریہ چھ چھ روپے مرحوم کے والد کو، اٹھائیس عشاریہ تین تین روپے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور چودہ عشاریہ ایک چھ روپے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے۔

نوٹ: یہ تقسیم اس صورت میں ہے جب کہ مرحوم کی والدہ حیات نہ ہوں، ان کے حیات ہونے کی صورت میں حصص کی تفصیل الگ ہوگی، لہذا اگر وہ حیات ہوں تو سوال دوبارہ ارسال کرکے تقسیم معلوم کرلی جائے۔

جب تک مرحوم کے بچے نا سمجھ ہیں اس وقت تک ان کے حصوں کی حفاظت و کاروبار  میں ان کے حصوں میں تصرف کی ذمہ داری دادا پر ہوگی، کاروبار اگر ابھی تقسیم نہیں کیا جارہا تو اس کاروبار میں مرحوم کے تمام شرعی وارث اپنے اپنے  حصص  کے بقدر شریک ہوں گے،  اور ہر ماہ یا چھ ماہ یا سال کے آخر میں  تقسیم بالا کے مطابق نفع کی تقسیم کرنا ضروری ہوگا۔

سائلہ اگر چاہے تو کاروبار میں اپنے سسر کو اپنا وکیل مقرر کردے  اور ان سے تفصیلات لیتی رہے،  نیز کل کاروبار میں سائلہ آٹھویں حصے (یعنی کل کے ساڑھے بارہ فیصد) میں شریک ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے حصے میں فیصلے کی مجاز ہے۔سسر کی وفات کے وقت اگر یہ ورثہ زندہ رہے تو  مذکورہ کاروبار میں  سائلہ کے بچے اپنے اپنے حصوں کے بقدر شریک ہوں گے، اور سسر کا جو حصہ ہے وہ ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں