بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کے لیے آئے ہوئے لوگوں کا میت کے گھر کھانا کھانے کا حکم


سوال

کیامیت  کے گھر تعزیت  کے  لیے آنے  والے کے  لیے کھاناکھانا جائز ہے؟  اگرجائزنہیں تو کتنے دن تک؟ نیز  کیا کسی ایک ہی آدمی کی طرف سے میت کے گھر میں کھانے کااہتمام کرنا صحیح ہے؟ کیا اس طرح کرنے سے دوسروں کی حق تلفی نہیں ہوگی؟ کیوں کہ تین دن تک میت کے گھر کھانا  پہنچانا سب پڑوسیوں کاحق ہے،  نیز اس سے لوگوں کی عادت بن گئی ہے  میت کے گھرکھانے کی اور میت کے ورثابھی طوعًا وکرھًا کھانا کھلاتے ہیں۔

جواب

جس گھر  میں میت  ہوجائے  ان کے پڑوسیوں اور  رشتے  داروں  کے  لیے مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے کہ میت کے گھر والوں کے  لیے اس دن (دو وقت) کے کھانے کا انتظام کریں اور خود  ساتھ  بیٹھ کر ،اصرار کر کے ان کو کھلائیں،اور ضرورت ہو تو تین دن تک کھانا کھلانا بھی جائز ہے، (تین دن تک کھانے کا انتظام لازم یا مستحب نہیں ہے) اہلِ میت کو یہ کھانا کھلانا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ غم و حزن اور تجہیز و تکفین کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کا موقع نہیں ملے گا، رسول اللہﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے  لیے کھانا تیار کرو، اس  لیے کہ ان کو ایسی خبر پہنچی ہے جو  ان کو مشغول کرے گی (یعنی جعفر کی موت کی خبر سن کر  صدمہ اور  رنج میں مشغول ہوکر کھانے پینے کے انتظام کی خبر نہیں رہے گی)۔

                لیکن یہ کھانا صرف میت کے گھر والوں  کے  لیے ہے ، یہ نہیں کہ تمام برادری و قوم کو کھلایا جائے؛ کیوں کہ تمام تعزیت کرنے والوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا  چاہیے، میت کے گھر قیام بھی نہیں کرنا  چاہیے اور اہلِ  میت کے یہاں ضیافت و دعوت بھی نہیں کھانی  چاہیے؛ کیوں کہ  دعوت کا کھانا تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ غم کے موقع پر، اسی  لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

                خلاصہ یہ ہے کہ میت کے گھر والوں کے  لیے پڑوسیوں اور اعزہ و اقارب کی طرف سے جو کھانا بھیجا جاتا ہے وہ صرف میت کے گھر والوں کے  لیے مختص ہے،  تمام رشتہ داروں، متعلقین اور محلہ والوں  کو اس موقع پر کھانے میں شریک ہونے کی باقاعدہ دعوت دینا، غیرموجودگی کی صورت میں بلوایا جانا اور نہ آنے پر ناراضی کا اظہار کرنا، اسی طرح لوگوں  کا اہتمام سے میت کے گھر جاکر کھانا کھانے کی عادت بنا لینا، یہ سب بدعت اور مکروہ ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"و عن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا لآل جعفر طعامًا فقد أتاهم ما يشغلهم). رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه."

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثانی،ص:۱۵۱ ،ط:قدیمی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"و المعنى جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم، فيحصل لهم الضرر وهم لايشعرون. قال الطيبي: دلّ على أنه يستحبّ للأقارب و الجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. و المراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإنّ الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لايستمر أكثر من يوم، و قيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلايضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، و اصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم؛ لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم. قال الغزالي: ويكره الأكل منه، قلت: وهذا إذا لم يكن من مال اليتيم أو الغائب، وإلا فهو حرام بلا خلاف."

(کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثانی،ج:۴؍ ۱۹۴ ،ط: رشیدیہ )

حاشیہ سنن ابی داؤد میں ہے:

"و اختلفو في أکل غیر أهل المصیبة ذلك الطعام قال أبو القاسم: لا بأس لمن کان مشغولًا بجھاز المیت، کذا في وصایا جامع الفقه."

(کتاب الجنائز، باب صنعۃ الطعام لاھل المیت، ج:۲ ؍۴۴۷ ،رقم حاشیہ:۵ ،ط:میر محمد)

        فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت.

وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه - عليه الصلاة والسلام - دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالا بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالبا من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ،ج:۲ ؍ ۲۴۰ ، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"و يكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون، والله أعلم."

(کتاب الصلاۃ،قبیل باب الشہید، ج:۲ ؍ ۱۰۲ ، ط: رشیدیہ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201532

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں