بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کا مخصوص طریقہ


سوال

ہمارے گاؤں میں (مہمند ایجنسی) اور یہاں لاہور میں یہ طریقہ چلتا ہے کہ جب کوئی فوتگی ہوتی ہے تو جنازے سے پہلے (میت ابھی گھر میں رکھی ہوتی ہےکہ)لوگ تعزیت کے لیے گھر کے بڑے کے پاس بیٹھتے ہیں اور اس موقع پر وہاں ایک قاری صاحب بیٹھے ہوتے ہیں وہ قرآنِ پاک کے کچھ حصے کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ تعزیت والے اور دوسرے ساتھ بیٹھے لوگ ہاتھ اٹھا کر میت کے حق میں دعا کرتے ہیں۔ کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟ ہم اس کو ایک رواج کے طور پر اختیار کرتے ہیں، دین کا لازمی حصہ نہیں سمجھتے،  لیکن تلاوت کا مقصد میت کو ثواب پہنچانا ہوتا ہے، بعض اوقات قاری صاحب کی غیر موجودگی میں آنے والا خود تلاوت کر کے دعا مانگتا ہے، ہمارے علاقے(مہمند ایجنسی) کے معتبر علماء  بھی یہی طریقہ اپناتے ہیں اور کسی قسم کی نکیر نہیں کرتے، لہذا ہمیں اس طریقے پر کوئی اشکال نہیں ہوا۔

لیکن یہاں پر بعض لوگوں کے توجہ دلانے پر یہ مسئلہ پوچھ رہے ہیں، اگر تعزیت کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے تو ہم کون سا ایسا طریقہ اختیار کریں کہ بدعات سے بچ سکیں؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چوں کہ ہمارے علاقے کے معتبر علماء  یہ طریقہ اپناتے رہے ہیں اور انہوں نے ہمیں کبھی منع نہیں کیا؛ لہذا یہ وہاں کا عرف ہے، اور ہم اسی لیے اس طریقے کو اختیار کرتے ہیں؟

جواب

تعزیت کا مذکورہ طریقہ درج ذیل مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے:

الف: دعا سے پہلے تلاوت کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ب:ہاتھ اٹھا کر اجتماعی طور پر دعا کرنے کو لازم سمجھا جاتا ہے۔

                                  اگر تلاوت کیے بغیر میت کے حق میں صرف دعا کی جائے اور ہاتھ اٹھانے کو لازمی نہ سمجھا جائے تو  اجتماعی طور پر دعا کرنے اور تعزیت  کی گنجائش ہے، اور لازمی نہ سمجھنے کا اظہار اسی طرح ہوسکتاہے کہ بعض اوقات اس طرح نہ کیا جائے، تاکہ عدمِ التزام معلوم ہوسکے۔

                                 حضرت عبد اللہ  بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بخدا ! مجھے ایسے لگتا ہے جیسا کہ میں نبی کریمﷺ کو غزوہ تبوک میں دیکھ رہا ہوں ، وہ عبد اللہ ذو البجادین کی قبر میں ہیں، حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے فرما رہے ہیں: اپنے بھائی کو میرے قریب کرو، آپ ﷺ نے انہیں قبلہ کی جانب سے لیا اور قبر میں رکھ دیا، پھر نبی کریم ﷺ قبر سے  نکلے اور بقیہ عمل شیخین رضی اللہ عنہما کے حوالہ کردیا، جب آپ ﷺ تدفین سے فارغ ہوئے تو ہاتھ اٹھا کر قبلہ رخ ہوئے  اور دعا کی: اے پروردگار ! میں آج کی شام اس سے راضی تھا آپ بھی اس سے راضی ہوجائیں، یہ رات کا واقعہ ہے، خدا کی قسم! میری اس وقت یہ حالت تھی کہ میری دلی تمنا تھی کہ عبد اللہ ذو البجادین کی جگہ میں ہوتا، میں ان سے پندرہ سال پہلے اسلام قبول کرچکا تھا۔

                           حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ  جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو وہاں ٹھہرتے اور فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور اللہ تعالی سے اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا مانگو ؛ کیوں کہ ابھی اس سے قبر میں سوال ہوگا۔

معرفۃ الصحابہ  میں ہے:

"عن عبد الله ، قال : والله لكأني أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك ، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين ، وأبو بكر وعمر يقول : « أدنيا مني أخاكما » ، فأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج النبي صلى الله عليه وسلم وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعًا يديه يقول: « اللّٰهم إني أمسيت عنه راضيًا فارض عنه» وكان ذلك ليلًا، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه، ولقد أسلمت قبله بخمس عشرة سنةً". (معرفة الصحابة ، باب الذال من باب العين (11 / 414)

سنن ابی داؤد  میں ہے:

"عن عثمان بن عفان قال: كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه، فقال: « استغفروا لأخيكم وسلوا له التثبيت؛ فإنه الآن يسأل»". (سنن أبي داود (3 / 209) ط:دار الكتاب العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لايفتن؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: من عزى أخاه بمصيبة كساه الله من حلل الكرامة يوم القيامة. رواه ابن ماجه وقوله عليه الصلاة والسلام من عزى مصابا فله مثل أجره رواه الترمذي وابن ماجه. (حاشية رد المحتار على الدر المختار  (2 / 240) ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں