بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت میں بار بار ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا حکم


سوال

جب  کسی شخص کا انتقال ہوتاہے تو اس کے گھر تعزیت میں جاکر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا شرعاً  کیسا ہے؟

جواب

تعزیت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس گھر میں غمی ہو ان کے پاس جا کر میت کے متعلقین کو تسلی دے، ان کے ساتھ اظہارِ ہم دردی کرے، اور صبر کے فضائل اور اس کا اجرو ثواب سنا کر ان کو صبر  کی ترغیب دے اور ان کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ صلی الل علیہ وسلم خود بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی نصیحت کرتے اور ترغیب دیتے تھے۔

تعزیت کے وقت یہ الفاظ کہنا مسنون ہے:

"إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَه‘ مَا أَعْطٰی ، وَکُلُّ شَيْءٍ عِنْدَه‘ بِأَجْلٍ مُّسَمًّی".

یہ الفاظ بھی منقول ہیں:

"أَعْظَمَ اﷲ أَجْرَكَ وَأَحْسَنَ عَزَائَكَ وَغَفَرَ لِمَیِّتِكَ".

لیکن دورانِ تعزیت بار بار ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا جو طریقہ آج کل رائج ہے اس کا ثبوت نہیں ہے، اسے لازم نہ سمجھا جائے، جہاں اسے ضروری سمجھا جاتاہو وہاں اس طریقہ کو ترک کرنا ضروری ہے، اور ضروری نہ سمجھا جائے تو ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جاسکتی ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 167):
"ويستحب أن يقال لصاحب التعزية: غفر الله تعالى لميتك وتجاوز عنه، وتغمده برحمته، ورزقك الصبر على مصيبته، وآجرك على موته، كذا في المضمرات ناقلاً عن الحجة. وأحسن ذلك تعزية رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى»".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200351

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں