بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تشکیل سے رایئونڈ واپسی پر قصر کرے یا اتمام؟


سوال

ایک آدمی رائیونڈ مرکز  میں آیا اور  20 دن گزار  دیے، پھر  سال کے لیے نکلا، ابھی اگر وہ رائیونڈ مرکز  آئےکسی تشکیل سے، میل100مسافت طے کرکے، تو کیا وہاں پوری نماز پڑھے یا قصر؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  اگر   مذکورہ شخص کا  علاقہ رائیونڈ شہر سے   77.24  کلومیٹر دور  ہے ،  پھر  رائیونڈ مرکز  میں یہ آدمی  (پندرہ دن سے زیادہ قیام کی نیت کر کے ) بیس دن  تک مقیم رہا ہے  تو  رائیونڈ شہر اس کے  لیے وطنِ  اقامت بن گیا تھا،   البتہ  وطنِ  اقامت سفر  شرعی (۴۸ میل سے زیادہ کا سفر کرنے) سے   یا دوسری جگہ  اقامت  (پندرہ دن  قیام کی نیت کر لینے) سے باطل ہوجاتا ہے  (الا یہ کہ وطنِ اقامت میں اپنا سامان مستقل رکھا جائے اور وقتًا فوقتًا وہاں آکر قیام کا ارادہ ہو، جو کہ تبلیغی ترتیب کے مطابق رائیونڈ میں نہیں ہوتا) ؛   لہذا جب مذکورہ شخص  نے رائیونڈ سے  سو میل کی  مسافت کا سفر کیا (بشرطیکہ رائیونڈ میں اس کا   کوئی  مخصوص ٹھکانہ/ اقامت گاہ   نہ ہو  جہاں اس کا سامان وغیرہ رکھا ہو )   تو رائیونڈ میں اس کی سابقہ اقامت باطل ہوگئی۔ اب جب  رائیونڈ  واپس آئے گا  اور پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ ہو تو یہ شخص رائیونڈ میں  مسافر ہی شمار ہوگا، اور قصر نماز پڑھے گا۔ اور اگرتشکیل میں اس حال  میں نکلا کہ پیچھے رائیونڈ میں اس کا کوئی مخصوص ٹھکانہ بھی تھا(جہاں اس کا سامان وغیرہ موجود ہو، اور واپس آکر  وہاں ٹھہرنے کا ارادہ ہو)  اگرچہ کچھ ہی عرصہ (مثلاً  جتنا وقت جماعت میں لگا رہا ہے، اس ہی عرصہ)  کے لیے ہو، تو اب جب تک یہ رائیونڈ سے اپنا ٹھکانا ختم نہ کردے  اور وہاں واپس نہ آنے کی نیت سے کوچ نہ کر جائے اس وقت تک رائیونڈ  اس کا وطن اقامت باقی رہے گا، لہٰذا اس دوران جب بھی وہ رائیونڈ آئے ، چاہے پندرہ دن سے کم  ہی کے لیے، تو وہ رائیونڈ میں مقیم ہی شمار ہوگا، اور پوری نماز ہی پڑھے گا۔

اور اگر یہ شخص شروع میں ہی رائیونڈ میں پندرہ دن یا زیادہ  ٹھہرنے کی نیت سے نہیں رکا تھا، بلکہ ایسی نیت  کیے  بغیر ہی وہاں 20 دن  گزر گئے تو   رائیونڈ  میں پہلی مرتبہ بھی یہ شخص مسافر ہی رہا، اور جب تک رائیونڈ میں کم از کم پندرہ دن اقامت کی نیت نہ کر لے رائیونڈ میں قصر ہی کرتا رہے گا۔

في ’’الهدایة‘‘:

’’ولا یزال حکم السفر حتی ینوي الإقامة في بلدة أو قریة خمسة عشر یوماً أو أکثر‘.(۱/۱۴۶)

"الدر المختار" میں ہے:

"(و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر)."

"شامی" میں ہے:

"(قوله: ويبطل وطن الإقامة) يسمى أيضا الوطن المستعار والحادث وهو ما خرج إليه بنية إقامة نصف شهر سواء كان بينه وبين الأصلي مسيرة السفر أو لا، وهذا رواية ابن سماعة عن محمد وعنه أن المسافة شرط والأول هو المختار عند الأكثرين قهستاني.

(قوله: بمثله) أي سواء كان بينهما مسيرة سفر أو لا قهستاني.

(قوله: وبالوطن الأصلي) كما إذا توطن بمكة نصف شهر ثم تأهل بمنى، أفاده القهستاني.

(قوله: وبإنشاء السفر) أي منه وكذا من غيره إذا لم يمر فيه عليه قبل سير مدة السفر.

قال في الفتح: إن السفر الناقض لوطن الإقامة ما ليس فيه مرور على وطن الإقامة أو ما يكون المرور فيه به بعد سير مدة السفر اهـ."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) “, ج:۲‘ص:۱۳۲ ,باب صلاة المسافر )

الفتاوى الهندية  میں ہے:

"وَطَنَ إقَامَةٍ وَهُوَ الْبَلَدُ الَّذِي يَنْوِي الْمُسَافِرُ الْإِقَامَةَ فِيهِ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَوْ أَكْثَرَ، وَوَطَنُ الْإِقَامَةِ يَبْطُلُ بِوَطَنِ الْإِقَامَةِ وَبِإِنْشَاءِ السَّفَرِ وَبِالْوَطَنِ الْأَصْلِيِّ، هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ."

( فتاویٰ ہندیہ ،الباب الخامس عشر‘ ، ج:۱،ص:۱۴۲)

بدائع میں ہے:

"(ووطن) الإقامة ينتقض بالوطن الأصلي؛ لأنه فوقه، وبوطن الإقامة أيضا؛ لأنه مثله، والشيء يجوز أن ينسخ بمثله، وينتقض بالسفر أيضا؛ لأن توطنه في هذا المقام ليس للقرار ولكن لحاجة، فإذا سافر منه يستدل به على قضاء حاجته فصار معرضا عن التوطن به، فصار ناقضا له دلالة، ولا ينتقض وطن الإقامة بوطن السكنى؛ لأنه دونه فلا ينسخه."

 (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 104),کتاب الصلاة فصل: والکلامہ فی صلاة المسافر: ط: سعید)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144207201133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں