بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی مشترکہ دکان فروخت کرکے کچھ ورثاء کا مزید پیسہ ملاکر دوسرا مکان خریدنا، والدین کی خدمت کا حکم


سوال

میرے والد کی وفات کے بعد ہم نے ترکہ کی تقسیم نہیں کی تھی، والد صاحب ایک دکان چھوڑ کر گئے، اور جو گھر تھے وہ والدہ کے زیور سے خریدے ہوئے تھے ، والد کے بعد  دو بھائیوں نے اور ہم بہنوں نے مل کر گھر کے اخراجات  برداشت کیے، پھر ایک گھر خریدا  جس میں دو والدہ کے گھر ، والد صاحب کی دکان، ایک بھائی کے چھ لاکھ، اور ایک شادی والی بہن کے چار لاکھ  اس گھر میں لگ چکے ہیں، آج یہ گھر جس میں رہائش ہے ،کروڑ کی مالیت کو پہنچ چکا ہے،  اب بھائی ہمارے گھر خرچ اور ضروریات پوری نہیں کرتے،  چار بہنوں کی شادی ہوچکی ہے، دو بھائی شادی والے ہیں،  بڑے بھائی اپنے حصے کا مطالبہ کررہے ہیں، والدہ گھر کرایہ پر دے کر آمدنی کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے، تین بہنیں حصہ لینے سے انکار کرر ہی ہیں ، ایک غیر شادی شدہ بہن ذہنی اور جسمانی  طور پر کمزور ہے، اپنے لیے کھانا پکانے یا روزگار کے لیے کچھ نہیں کرسکتی، ایک بہن ہماری مدد کرتی ہے، 25 لاکھ سب بھائی بہنوں کی شادی ، بیماری اور اس گھر پر لگ چکے ہیں ، اب ہم وہ دینے کے قابل نہیں رہے، میں سلائی  کرکے ماں بہن کی خدمت کر رہی ہوں، والدہ کی عمر 82 سال ہوچکی ہے، مجھے مشورہ دیں کہ والد کی جائیداد کی تقسیم ضروری ہے؟ اور چھوٹے بھائی اور بہن نے جو سرمایہ گھر میں لگایا ہے ان کو کس طرح دیا جائے؟ والدہ گھر فروخت نہیں کرنا چاہتی، اس لیے کہ بیٹے اب پیسہ تو نہیں دیتے ، خدمت بھی نہیں کرتے،اور روزگار کے لیے میں نے اپنا عالمہ کا کورس بھی چھوڑ دیا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد کے انتقال کے بعد ان کے کل ترکہ میں ان کے تمام شرعی ورثاء کا حق متعلق ہوگیا تھا، اور وہ ترکہ تمام ورثاء کے درمیان  مشترک ہوگیا تھا، اور تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے مطابق اس میں شریک ہوگئے تھے،  بعد ازاں  ترکہ کی دکان  فروخت کرکے اس میں (مزید ) والدہ اور  ایک بھائی اور بہن نے رقم  ملاکر  مشترکہ طور پر جو دوسرا مکان خریدا تو اس مکان میں جتنا حصہ ترکہ کا تھا وہ سب ورثاء کا مشترکہ ہوگا اور باقی والدہ ، بھائی اور بہن   اپنی رقم کے مطابق اس مکان میں اپنے حصے کے تناسب سے  شریک ہوں گے،  اب جب کہ اس گھر کی قیمت ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے تو  گھر کی موجودہ مالیت میں ترکہ کی رقم کا جتنا فیصد بنتا ہے وہ والد کا ترکہ ہے، جتنا فیصد والدہ کا ہے اس کی مالک والدہ ہیں، اور جتنے فیصد بہن اور بھائی کے بنتے ہیں تو موجودہ قیمت میں اتنے فیصد ان کا حصہ ہوگا۔

اب اس مشترکہ مکان میں سے کوئی شریک اپنے حصے کا مطالبہ کرے تو  اس کا حصہ دینا شرعاً ضروری ہے،   اور باہمی رضامندی سے اس کو اس کے حصے کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے، لہذا بڑے بھائی  ترکہ میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کررہے ہیں تو ان کو ان کا حصہ  ادا کردیں۔

باقی آپ نےوالدہ کے ساتھ اپنے بھائیوں کے رویہ اور سلوک کی جو تفصیل ذکر کی اگر یہ واقعہ کے مطابق اور درست ہے تو ان کا رویہ انتہائی نامناسب ہے،  اولاد  پر جائز امور میں  اپنے  والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری  فرض ہے، نیز والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا بھی شرعاً ضروری ہے، ان کی نافرمانی اور ان کی ایذا رسانی  سخت حرام اور گناہِ کبیرہ  ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ  میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے،  اور والدین کی نافرمانی،  ان کے ساتھ   بد کلامی  کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی  ہیں۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ [الإسراء: 23، 24]

         ترجمہ: اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا ، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔ ( ازبیان القرآن)

         ایک حدیث میں ہے:

" عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ»". (مشکوٰۃ،  ج ؛ 2 ،ص؛ 421، باب البر والصلۃ، قدیمی)

         ترجمہ: حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا :  اے  اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، ( یعنی ان کی خدمت کروگے تو  جنت میں جاؤ گے ،  ان نافرمانی کروگے  تو دوزخ میں جاوگے)         (مظاہرِ حق ، 4/486، ط قدیمی)

ایک اور حدیث میں ہے:

"وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»". (مشکاۃ المصابیح ،  2/421 ،باب البر والصلۃ، قدیمی)

         ترجمہ: رسول کریمﷺ نے فرمایا ؛ شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں  جلد ہی سزا  دے دیتا ہے۔(مظاہرِ حق ، 4/487، ط قدیمی)

لہذا بھائیوں کو چاہیے کہ وہ والدہ کی خوب خدمت کریں ، اس پیرانہ سالی میں انہیں مشقت میں نہ ڈالیں اور ان کی دعائیں لیں ، اور   آپ کی والدہ، آپ  اور آپ کی بہن کے اخراجات والد کے ترکہ میں سے جو آپ کو حصہ ملا ہے اس میں سے پورا کریں ، اگر اس  سے پورا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر آپ  ، آپ کی والدہ اور دوسری بہن کا نان ونفقہ اور خرچہ شرعاً  آپ کے بھائیوں پر برابری کے بنیاد پر لازم ہے، اور نہ دینے پر وہ گناہ گار ہوں گے۔

اگر سب ورثاء رضامندی سے یہ مکان برقرار رکھنا چاہتے ہیں تب تو ٹھیک ، ورنہ  ترکہ کی تقسیم کرلیں ،  ورثاء کو ان کا حصہ دے دیں  ، حصہ دینے کے بعد اگر کوئی وارث اپنا حصہ نہ لینا چاہے اور کسی دوسرے وارث کے حق میں دست برادر ہوجائے تو شرعاً یہ درست ہے، البتہ ترکہ کی تقسیم سے پہلے  کسی وارث کا کچھ عوض لیے بغیر دست بردار ہوجانا  شرعاً معتبر نہیں ہے، اس لیے جو بہنیں خوشی سے اپنے حصے سے دست بردار ہونا چاہیں تو انہیں یا تو کچھ دے دیں اور صلح کرلیں یا ان سے کہیں کے ترکہ کی تقسیم کے بعد  پھر دست بردار ہوجائیں۔

پھر بعد ازاں آپ کے حصے میں جو رقم آئے اس سے ذرا کم قیمت کا مکان لے لیں ، یا کہیں سے رقم کا بندوبست ہوسکتا ہے تو مطالبہ کرنے والے ورثاء کو ان کے حصے کی رقم دے کر  یہی موجودہ مکان میں سے ان کا حصہ خرید لیں۔

نیز اللہ سے مانگیں اس کے خزانہ لامحدود ہیں، ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ بہتر اسباب اور وسائل پیدا فرمادیں گے۔

شرح المجلہ میں ہے:

"(الْمَادَّةُ 1073) تَقْسِيمُ حَاصِلَاتِ الْأَمْوَالِ الْمُشْتَرَكَةِ فِي شَرِكَةِ الْمِلْكِ بَيْنَ أَصْحَابِهِمْ بِنِسْبَةِ حِصَصِهِمْ".(4/14، الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ط:رشیدیہ)

       فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن كان الأب قد مات وترك أموالاً، وترك أولاداً صغاراً كانت نفقة الأولاد من أنصبائهم، وكذا كل ما يكون وارثاً فنفقته في نصيبه". (1/564، الفصل الربع فی نفقۃ الاولاد، ط: رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب أيضاً (لكل ذي رحم محرم صغير أو أنثى) مطلقاً (ولو) كانت الأنثى (بالغةً) صحيحةً (أو) كان الذكر (بالغاً) لكن (عاجزاً) عن الكسب (بنحو زمانة) كعمى وعته وفلج، زاد في الملتقى والمختار: أو لا يحسن الكسب لحرفة أو لكونه من ذوي البيوتات أو طالب علم (فقيراً) حال من المجموع". (3/627، باب النفقہ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں