بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی دکانوں کے کرایہ کو تقسیم کرنے کا طریقہ


سوال

 ہماری وراثت کی جائے داد  میں ایک مکان اور اْس کے نیچے تین دوکانیں ہیں، دوکانیں کرایہ پر ہیں، جن سے مجموعی کرایہ 60000 ساٹھ ہزار ماہانہ ملتا ہے، ہم وارثین میں ایک والدہ، دو بھائی، اور 6 بہنیں ہیں، مکان میں کبھی والدہ رہتی ہیں اور کبھی بند رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کے دوکانوں کی آمدن کو کس طرح تقسیم کریں؟  ہم میں سے کچھ کی رائے ہے اس کو برابر تقسیم کردیں یعنی 60000 تقسیم 9 افراد کے فارمولے سے کے ہر فرد کا ایک جیسا حصہ ملے۔راہ نمائی فرمادیں!

جواب

کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی متروکہ میں جائے داد  میں اس کے تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصص کے تناسب سے شریک ہوتے ہیں، اور اگر ترکہ کی  جائے داد کرایہ پر دی ہوئی ہو اور  ورثاء نے باہمی رضامندی سے کرایہ پر اس کو باقی رکھا ہو تو اب اس کے کرایہ میں تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصص کے تناسب سے شریک ہوں گے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ جائے داد  آپ کے مرحوم والد کی ہو اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء میں ان کی بیوہ (آپ کی والدہ) اور دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہوں تو مرحوم کے حقوقِ متقدمہ (تجہیز وتکفین کے اخراجات ، قرض ہونے کی صورت میں کل مال سے قرض کی ادائیگی، اور اگر وصیت کی ہو تو  ایک تہائی ترکہ میں وصیت کے نفاذ ) کے بعد باقی ترکہ کو 80 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو 10 حصے، مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو 14،14 حصے، اور ہر ایک بیٹی کو 7،7 حصہ ملیں گے۔

اس حساب سے ماہانہ 60000 کرایہ میں سے مرحوم کی بیوہ کا حصہ 7500 روپے ، اور ہر ایک بیٹے کا  10500 روپے اور ہر ایک بیٹی کو 5250 روپے  ہے۔

تقسیم کا مذکورہ طریقہ میراث کے شرعی ضابطہ کے مطابق ہوا ہے، ہاں اگر ورثاء میں سب عاقل بالغ ہیں اور اپنی رضامندی سے کرایہ کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں اس کو ”تقسیمِ رضا“ کہتے ہیں اور یہ بھی جائز ہے۔شرح المجلہ میں ہے:

’’الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم". (شرح المجلة للأتاسي، (4/14)، الْمَادَّةُ :1073، الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144007200263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں