بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ میں بعض ورثاء کا تجارت کرنااور خسارہ اٹھانا


سوال

ایک بندہ جس کے پاس گودام اور دکان تھی،اس دکان  اور گودام میں یہ بندہ کاروبار کرتا تھا،اس بندے کا انتقال ہوجاتاہے،اب  پراپرٹی اس کے ورثاء  کی ہوجاتی ہے،ورثاء میں ایک ماں،پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں،ابو کے انتقال کے بعد دو بھائیوں نے کاروبار سنبھالا، مگر اس سے جو پیسے آتے تھے وہ استعمال کرلیاکرتے تھے،ان پیسوں کو دوبارہ کاروبار میں نہیں لگایا،جس کی وجہ سے ادھار بہت زیادہ ہوگیاتھا،ادھار کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے گودام کو سب کی اجازت سے بیچ دیا،اب سوال یہ ہے کہ:

1۔ جو نقصان ہوا ہے کیااس میں تمام بہن بھائی شریک ہیں؟کیا تمام بہن بھائی جن کا حصہ ہے کیا وہ بھی اس نقصان میں برابر کے شریک ہیں؟

2۔پھر کچھ دنوں کے بعد ایک جھوٹ کا سہارا لے کر انہوں نے دکان بھی بیچ دی،اب کی بار دکان کے بیچنے میں بڑے بھائی کی رضامندی شامل نہیں تھی ،بڑے بھائی موجود بھی نہیں تھے انہوں نے منع کردیا،لیکن دو بھائیوں نے پھر بھی بیچ دی،والدہ کی رضامندی بھی شامل نہیں تھی ،اب جائیدادکی رقم ان بھائیوں نے استعمال کرلی، گاڑی بھی خریدی۔مگر کسی بہن بھائی کو اس کا حصہ نہیں دیا۔کیا اس طرح بیچنااور گاڑی خریدنادرست تھا؟کسی بہن بھائی کو کچھ پتا نہیں کتنے میں سودا ہوا اور نہ ہی کسی کو کچھ دیا۔اب ان سے کوئی پوچھتا بھی نہیں ؛ کیوں کہ کوئی پوچھتا ہے تو شور شرابہ ہوتاہے،ایک بہن نے حصہ مانگا تو انہوں نے کہا کہ تمہارا حصہ پندرہ لاکھ بنتاہے، مگر کیش نہیں دوں گا، فلیٹ ہی لے کر دوں گا۔ اس فلیٹ کی مالیت کا بھی کوئی علم نہیں کتنی کی ہے، اب سوال یہ ہے کہ:

 3۔کیا دونوں بھائیوں پر لازم ہے کہ تمام ورثہ کو حساب دیں؟ اس موقع پر والدہ اور دیگر بہن بھائیوں کاکیا کردار ہوناچاہیے؟حساب مانگنے پر چیخ وپکار کی جاتی ہے ، کیا یہ درست ہے؟براہ کرم تفصیل سے جواب دیں۔

جواب

شرعی لحاظ سے کسی کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ جلد از جلد ورثاء میں تقسیم کردیناچاہیے، بلاوجہ ترکہ پر قبضہ کرکے رکھنا یا دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف کرناجائزنہیں ہے۔اگرکچھ ورثاء دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر ان کے حصص میں تصرف کریں اورنقصان ہوجائے تو وہ تصرف کرنے والے ضامن ہوتے ہیں۔لہذا اگر دو بھائیوں نے ترکہ پر قبضہ کرکے دوسروں کی اجازت کے بغیر کاروبار کو جاری رکھا اور ساراترکہ نقصان میں ڈبودیاتووہ دونوں  دیگر ورثہ کے حصص کے ذمہ دار ہیں۔جو جائیداد یں ان دو بھائیوں نے بیچی ہیں اگر ورثاء نے اجازت نہیں دی تھی تو ورثاء کے حصص میں بیع نافذ ہی  نہیں ہوئی، بلکہ ان کاحصہ برقرار ہے اوراگر انہوں نے بیچنے کی اجازت دے دی تو  اپنے حصص کے بقدر وہ رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

مذکورہ صورت میں شرعی لحاظ سے وراثت کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ 104حصوں میں تقسیم کیاجائے گا جس میں سے 13حصے والدہ کو ،14،14 حصےہر ایک بھائی کو اور 7،7 حصے ہرایک بہن کو ملیں گے۔یعنی سوروپے میں سے 12.5 ر وپے والدہ کو اور 13.46 روپے ہرایک بھائی کو اور 6.73 روپے ہر ایک بہن کو ملیں گے۔حاصل یہ ہے کہ والد کے ترکہ کی جتنی رقم بنتی ہے اس کا حساب کرکے دونوں بھائیوں پر لازم ہے کہ دیگر بہن بھائیوں کو مذکورہ بالاتقسیم کے مطابق ان کے حصے  ادا کردیں۔ اگر کوئی وارث اپنے حصے کا مطالبہ کرتاہے تو دیگر ورثہ (یعنی والدہ اور بہن بھائیوں) کو اس کا حصہ دلانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

"فتاویٰ ہندیہ" میں ہے:"لو تصرف أحد الورثة في التركة المشتركة وربح فالربح للمتصرف وحده ، كذا في الفتاوى الغياثية ."(18/209۔)

"دررالحکام" میں ہے:"إذا أخذ الورثة مقدارا من النقود من التركة قبل القسمة بدون إذن الآخرين وعمل فيه فخساره يعود عليه , كما أنه لو ربح لا يأخذ الورثة حصة فيه ) إذا تصرف أحد بلا إذن في مال الغير وربح يكون الربح له , ويتفرع عن ذلك مسائل عديدة : المسألة الأولى - إذا أخذ أحد الورثة مقدارا من النقود من التركة قبل القسمة بدون إذن الآخرين أو إذن الوصي إذا كان الورثة صغارا فكما أن الضرر يعود عليه ويأخذ الورثة حصتهم في رأس المال فقط كذلك لو ربح فلا يأخذ الورثة حصة من الربح........مثلا لو أخذ أحد الورثة من تركة مورثه بدون إذنهم مائة دينار وباع واشترى بها فربح خمسين دينارا فتكون الخمسون دينارا له وليس للورثة الآخرين الاشتراك في هذا الربح ويكون ذلك الوارث ضامنا للورثة حصصهم في رأس المال كما أنه لو خسر في البيع والشراء تلك المائة الدينار كلا أو بعضا فيعود الخسار المذكور عليه ويضمن حصص الورثة الآخرين(3/50دارالکتب)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143811200015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں