بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ترک رفع یدین کے مستدل


سوال

میرا ایک دوست اہلِ حدیث ہے،  جو کہتا ہے کہ رکوع کرنے سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین نہ کرنے کی کوئی  حدیث ہے تو بتائیں. میں نے اسے کہا کہ ایک حدیث میں ہے کہ گھوڑے کی دم کی طرح پنکھے مت چلاؤ ( اللہ کمی بیشی معاف کرے)۔  وہ کہتا ہے کہ یہ حدیث شیعہ لوگوں کے سلام کرنے کے لیے ہے.

جواب

رفع یدین ابتدا میں نمازشروع کرتے وقت اوررکوع میں جاتے وقت اوررکوع سے اٹھتے وقت اوردونوں سجدوں کے درمیان ہوتاتھا، اوریہ سب صحیح احادیث سے ثابت ہے۔پھرسجدوں کے درمیان اوررکوع میں جانے اوررکوع سے اٹھنے کے مواقع میں منسوخ ہوگیا۔اوریہ کئی صحابہ کرامؓ سے قولاً اورعملاً ثابت ہے۔خاص کر خلفاءِ راشدین میں سے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفروحضر کے خادم، خلفائے راشدین کے بعداعلیٰ مقام رکھنے والے اورصحابہ کے درمیان فقاہت میں ممتازحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ  کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعمل بھی اسی پرتھا۔ ظاہر بات ہے کہ حضور ﷺ کے اتنے قریب رہنے والے اور علم وفقہ اور فتویٰ میں بلند مقام رکھنے والے یہ صحابہ کرام کبھی بھی سنت کو ترک نہیں کرسکتے، ان کا معمول اس بات کی دلیل ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین سنت نہیں ہے۔ 

چنانچہ ترمذی شریف کی روایت ہے:

سنن الترمذي (2/ 40):
" عن علقمة قال: قال عبد الله [ بن مسعود ] : ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فصلى فلم يرفع يديه إلا في أول مرة.  [ قال:] وفي الباب عن البراء بن عازب.  قال أبو عيسى: حديث ابن مسعود حديث حسن". 

ترجمہ: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا:  کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو آپ نے نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔

موطأ مالك رواية محمد بن الحسن الشيباني (ص: 59):
"110 - قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ".

اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں  روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صرف تکبیرِ اولیٰ میں رفعِ یدین فرمایا کرتے تھے، اس کے علاوہ دیگر مواقع پر رفعِ یدین نہیں فرمایا کرتے تھے۔

مصنف ابن أبي شيبة - ترقيم عوامة (1/ 236):
"عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ؛ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ ، ثُمَّ لاَ يَعُودُ".

لہذا  حنفی مسلک میں متعدد روایاتِ  صحیحہ کی بنیاد پر رفع یدین کاترک ہی افضل ہے۔

"عن البراء -رضي الله عنه- قال: رأیت رسول الله صلی الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریباً من أذنیه، ثم لم یرفعهما". (مسند أبي یعلی الموصلي، دارالکتب العلمیة، بیروت ۲/ ۱۵۳، رقم: ۱۶۸۸، أبوداؤد، الصلاة، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، النسخة الهندیة ۱/ ۱۰۹، دارالسلام، رقم: ۷۴۹) 
"عن علقمة، عن عبد الله بن مسعودؓ، قال: صلیت خلف النبي ﷺ ومع أبي بکر وعمر رضی الله عنهما فلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة". (السنن الکبری للبیهقي، دارالکفر بیروت ۲/ ۳۹۳، رقم: ۲۵۸۶)

باقی آپ نے سوال میں جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ حدیث اس طرح ہے:

"عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول  الله صلی  الله علیه وسلم فقال: مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلاة". (صحیح مسلم  ۱/  ۱۸۱)
ترجمہ : حضرت جابر بن سمرہ رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی  اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف تشریف لاکر فرمایا : مجھے کیا ہوگیا کہ میں تم لوگوں کو نماز کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، گویا کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ بے چینی میں گھوڑے اپنی دم کو اوپر اٹھا اٹھا کر ہلاتے ہیں، تم نماز کے اندر ایسا ہرگز مت کیا کرو، نماز میں سکون اختیار کرو۔

اس حدیث کو بھی علماء کرام نے ترکِ رفع یدین کے مستدل کے طور پر ذکر کیا ہے، اور یہ یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں شیعہ موجود نہیں تھے نہ ہی ان کے طریقے کے مطابق سلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں رائج تھا جس کی نفی اس حدیث میں کی جائے، اس لیے آپ کے دوست کا جواب درست نہیں ہے۔ باقی اگر کسی کو اس حدیث سے استدلال کرنے میں تردد ہو تو دیگر احادیث استدلال کے لیے کافی و شافی ہیں۔ فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

کیا رفع یدین کا حکم اور اس کا منسوخ ہونا صحیح بخاری میں موجود ہے ؟ / ترک رفع یدین کے دلائل

ترک رفع یدین کی دلیل


فتوی نمبر : 144004200475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں