ہمارے علاقے کی ایک مسجد میں تراویح کی نماز میں حافظ صاحب کو {اُولٰئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ} کی جگہ "أصحاب النار" سے ایک حافظ نے لقمہ دیا، امامت کرنے والے حافظ نے بھی لقمہ لے کر پڑھا، دودن کے بعد جھگڑا ہورہاہے نماز لوٹانی ہے یا نہیں؟ میرا سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرناہے ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مقتدی نے {اُولٰئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ} کی جگہ ”أولئک أصحاب النار“ سے لقمہ دیا اور امام نے لقمہ لے لیا اور دوبارہ اسی رکعت میں اس کو صحیح نہیں کیا تو نماز فاسد ہوگئی، اگر اسی رکعت میں اس کو دوبارہ صحیح کرلیا تھا تو نماز درست ہوگئی۔
نماز فاسد ہونے کی صورت میں ان دو رکعتوں کا وقت کے اندر اعادہ واجب تھا، اب وقت نکل جانے کے بعد اعادہ نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ تراویح کی قضا نہیں ہوتی، لہذا اس پر توبہ واستغفار کرلیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 44):
"(ويستحب تأخيرها إلى ثلث الليل) أو نصفه، ولاتكره بعده في الأصح (ولاتقضى إذا فاتت أصلاً)ولا وحده في الأصح (فإن قضاها كانت نفلاً مستحباً وليس بتراوح) كسنة مغرب وعشاء".
الفتاوى الهندية (1/ 117):
"وإذا تذكروا أنه فسد عليهم شفع من الليلة الماضية فأرادوا القضاء بنية التراويح يكره، ولو تذكروا تسليمة بعد أن صلوا الوتر قال محمد بن الفضل: لايصلونها بجماعة، وقال الصدر الشهيد: يجوز أن يصلوها بجماعة، كذا في السراج الوهاج". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201745
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن