بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ختمِ قرآن کے موقع پر آخری رکعت میں سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات پڑھنے کا حکم


سوال

رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن مکمل سنانے پر قاری ختم والے دن سورۂ ناس کے بعد دوسری رکعت میں (الم) کا پہلا رکوع پڑھنے کا جو التزام کرتا ہے اس کا التزام کرنا ضروری ہے؟ ایسے ہی عام طور پے ختم کرنے پر کیا جاتا ہے تو  ایسا کرنے کا التزام کیوں کیا جاتا ہے، کیا ایسا کرنا صحابہ یا تابعین سے ثابت ہے?

جواب

تراویح میں قرآنِ مجید ختم کرکے آخری دو رکعت میں سے پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ  سورۂ فلق اور سورۂ ناس اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات ”المفلحون“  تک پڑھنا مستحب ہے، یہ حدیث سے مستنبط ہے اور سلفِ صالحین کا اس پر عمل ہے، حدیثِ مبارک  میں آتا ہے کہ   نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا :یا رسول اللہ ﷺ ! کون سا عمل اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے؟ تو  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :رک کر، روانہ ہوجانا، عرض کیا گیا یا رسول اللہ! ”رک کر روانہ ہوجانا“ اس سے مراد کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا قرآن پڑھنے والا شروع سے لے کر آخر تک پڑھتا رہے اور  جب بھی وہ رکے ہے تو پھر  سے شروع کردے۔

اسی حدیث کی بنا پر سلف صالحین سے یہ طریقہ منقول ہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید ختم کے بعد فوراً دوسرا قرآن شروع کردیتے ہیں؛ تاکہ یہ سلسلہ چلتا رہے اور یہاں رک نہ جائے۔ البتہ یہ عمل مستحب ہے اس کو اسی درجہ میں رکھنا چاہیے، مستحب عمل کو بھی فرض یا واجب کا درجہ دے دیا جائے یا اس کو اس حد تک لازم سمجھا جائے کہ اس کے نہ کرنے والے پر طعن وتشنیع کی جانے لگے تو وہ ”بدعت“ کا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔

سنن الترمذي ت شاكر (5 / 197):
"عن ابن عباس، قال: قال [ص:198] رجل: يا رسول الله أيّ العمل أحبّ إلى الله؟ قال: «الحال المرتحل». قال: وما الحال المرتحل؟ قال: «الذي يضرب من أول القرآن إلى آخره كلما حل ارتحل»".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 546):
 ويكره الفصل بسورة قصيرة وأن يقرأ منكوساً إلا إذا ختم فيقرأ من البقرة.

(قوله إلا إذا ختم إلخ) قال في شرح المنية: وفي الولوالجية: من يختم القرآن في الصلاة إذا فرغ من المعوذتين في الركعة الأولى يركع ثم يقرأ في الثانية بالفاتحة وشيء من سورة البقرة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «خير الناس الحال المرتحل» أي الخاتم المفتتح اهـ". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200526

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں