بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تدفین کے بعد معلوم ہوا کہ میت کو ناپاک پانی سے غسل دیا گیا تھا


سوال

میت کو غسل دینے کے بعد دفن کر دیا گیا اس کے بعد پتا چلا کہ جس پانی سے میت کو غسل دیا گیا تھا وہ ناپاک تھا۔

1۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ میت کا غسل صحیح ہوا یا نہیں؟ اگر نہیں ہوا تو تدفین کے بعد میت کو دوبارہ غسل دیا جائے گا یا نہیں؟ اور غسل دینے کی صورت کیا ہو گی؟

2۔ اگر دوبارہ غسل دینے کی ضرورت ہے تو کشف القبر کا حکم کیا ہو گا؟

3۔ اگر میت کی تدفین کو 15 یا 20 دن گزر گئے تو کیا حکم ہو گا؟

امید ہے کہ مندرجہ بالا شقوں کو سامنے رکھتے ہوئے علماءِ کرام اور مفتیانِ عظام قرآن و حدیث کی روشنی میں محول و مدلل جواب تحریر فرمائیں گے!

جواب

واضح رہے کہ تدفین کے بعد قبر کشائی کی اجازت اس صورت میں ہوتی ہے جب کہ اس جگہ، یا کفن،  یا اس قبر کے ساتھ کسی کا حق بایں طور ثابت ہوجائے کہ قبر کی زمین غصب شدہ ہو، یا کفن غصب شدہ ہو یا تدفین کے دوران قبر میں نقدی یا کوئی سامان گرجائے، اور مالک اپنے حق سے دست بردار ہونے تیار نہ ہو، بصورتِ دیگر قبر کشائی حرام ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں میت کا غسل اگرچہ صحیح نہیں تھا، مگر  اب قبر کشائی کی اجازت نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"يَجُوزُ النَّبْشُ فِي الْمُسْلِمِ لِحَقِّ آدَمِيٍّ كَسُقُوطِ مَتَاعٍ أَوْ تَكْفِينٍ بِثَوْبٍ مَغْصُوبٍ أَوْ دَفْنٍ مَالٍ مَعَهُ وَلَوْ دِرْهَمًا، كَمَا فِي جَنَائِزِ الْبَحْرِ، فَافْهَمْ". ( كِتَابُ الْجِهَادِ، ٤ / ١٣٢)

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاحمیں ہے:

"وينبش" القبر "لمتاع" كثوب ودرهم "سقط فيه" وقيل: لاينبش، بل يحفر من جهة المتاع ويخرج، "و" ينبش "لكفن مغصوب" لم يرض صاحبه إلا بأخذه "ومال مع الميت" لأن النبي صلى الله عليه وسلم أباح نبش قبر أبي رغال لذلك "ولا ينبش" الميت "بوضعه لغير القبلة أو" وضعه "على يساره" أو جعل رأسه موضع رجليه ولو سوي اللبن عليه ولم يهل التراب نزع اللبن وراعى السنة". ( فصل في حملها ودفنها، ١ / ٦١٦)

مجمع الأنهر في شرح ملتقي الابحر میں ہے:

"(وَإِنْ دُفِنَ) بَعْدَ غُسْلِهِ (بِلَا صَلَاةٍ صُلِّيَ عَلَى قَبْرِهِ) لِأَنَّهُ «عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ صَلَّى عَلَى قَبْرِ امْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ» (مَا لَمْ يُظَنَّ تَفَسُّخُهُ) أَيْ تَفَرُّقُ أَجْزَائِهِ وَالْمُعْتَبَرُ فِي ذَلِكَ أَكْبَرُ الرَّأْيِ عَلَى الصَّحِيحِ لِاخْتِلَافِ الْحَالِ وَالزَّمَانِ وَالْمَكَانِ، وَإِنَّمَا قَيَّدْنَا بَعْدَ غُسْلِهِ؛ لِأَنَّ الصَّلَاةَ بِدُونِ الْغُسْلِ لَيْسَتْ بِمَشْرُوعَةٍ وَلَايُؤْمَرُ بِالْغُسْلِ لِتَضَمُّنِهِ أَمْرًا حَرَامًا وَهُوَ نَبْشُ الْقَبْرِ، فَسَقَطَتْ الصَّلَاةُ، كَذَا فِي الْغَايَةِ. لَكِنَّ إطْلَاقَ الْمُصَنِّفِ يَشْمَلُ مَا إذَا كَانَ مَدْفُونًا بَعْدَ الْغُسْلِ أَوْ قَبْلَهُ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ أخْرجَ مِنْ الْقَبْرِ فَغسل إنْ لَمْ يُغَسَّلْ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ مَا لَمْ يُهِيلُوا التُّرَابَ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِنَبْشٍ". (فَصْلٌ الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ، ١ / ١٨٣)

البحر الرائق میں ہے:

"فَلَوْ دُفِنَ بِلَا غُسْلٍ، وَلَمْ يُمْكِنْ إخْرَاجُهُ إلَّا بِالنَّبْشِ صُلِّيَ عَلَى قَبْرِهِ بِلَا غُسْلٍ لِلضَّرُورَةِ، بِخِلَافِ مَا إذَا لَمْ يُهَلْ عَلَيْهِ التُّرَابُ بَعْدُ فَإِنَّهُ يُخْرَجُ وَيُغَسَّلُ، وَلَوْ صُلِّيَ عَلَيْهِ بِلَا غُسْلٍ جَهْلًا مَثَلًا، وَلَايُخْرَجُ إلَّا بِالنَّبْشِ تُعَادُ لِفَسَادِ الْأُولَى، وَقِيلَ: تَنْقَلِبُ الْأُولَى صَحِيحَةً عِنْدَ تَحَقُّقِ الْعَجْزِ فَلَاتُعَادُ". ( كِتَابُ الْجَنَائِزِ)

و فيه أيضًا:

"(قَوْلُهُ: وَلَايُخْرَجُ مِنْ الْقَبْرِ إلَّا أَنْ تَكُونَ الْأَرْضُ مَغْصُوبَةً) أَيْ بَعْدَ مَا أُهِيلَ التُّرَابُ عَلَيْهِ لَايَجُوزُ إخْرَاجُهُ لِغَيْرِ ضَرُورَةٍ لِلنَّهْيِ الْوَارِدِ عَنْ نَبْشِهِ وَصَرَّحُوا بِحُرْمَتِهِ وَأَشَارَ بِكَوْنِ الْأَرْضِ مَغْصُوبَةً إلَى أَنَّهُ يَجُوزُ نَبْشُهُ لِحَقِّ الْآدَمِيِّ كَمَا إذَا سَقَطَ فِيهَا مَتَاعُهُ أَوْ كُفِّنَ بِثَوْبٍ مَغْصُوبٍ أَوْ دُفِنَ فِي مِلْكِ الْغَيْرِ أَوْ دُفِنَ مَعَهُ مَالُ أَحْيَاءٍ لِحَقِّ الْمُحْتَاجِ قَدْ «أَبَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبْشَ قَبْرِ أَبِي رَغالٍ لِعَصًا مِنْ ذَهَبٍ مَعَهُ»، كَذَا فِي الْمُجْتَبَى، قَالُوا: وَلَوْ كَانَ الْمَالُ دِرْهَمًا وَدَخَلَ فِيهِ مَا إذَا أَخَذَهَا الشَّفِيعُ فَإِنَّهُ يُنْبَشُ أَيْضًا لِحَقِّهِ كَمَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ، وَذُكِرَ فِي التَّبْيِينِ: أَنَّ صَاحِبَ الْأَرْضِ مُخَيَّرٌ إنْ شَاءَ أَخْرَجَهُ مِنْهَا وَإِنْ شَاءَ سَاوَاهُ مَعَ الْأَرْضِ وَانْتَفَعَ بِهَا زِرَاعَةً أَوْ غَيْرَهَا، وَأَفَادَ كَلَامُ الْمُصَنِّفِ أَنَّهُ لَوْ وُضِعَ لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ أَوْ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ أَوْ جُعِلَ رَأْسُهُ فِي مَوْضِعِ رِجْلَيْهِ أَوْ دُفِنَ بِلَا غُسْلٍ وَأُهِيلَ عَلَيْهِ التُّرَابُ فَإِنَّهُ لَايُنْبَشُ قَالَ فِي الْبَدَائِعِ؛ لِأَنَّ النَّبْشَ حَرَامٌ حَقًّا لِلَّهِ تَعَالَى". (كِتَابُ الْجَنَائِزِ، ٢/ ٢١٠) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں