بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تدفین کے بعد سرہانے اور پائیتی کھڑے ہوکر سورہ بقرہ کی آیات پڑھنا


سوال

میت کو دفنانے کے بعد تلقین کرتے ہوئے میت کے سرہانے اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کا اول و آخر پڑھا جاتاہے، ان آیات کو پڑھتے ہوئے کیا صرف میت کے سرہانے اور پاؤں کی جانب ہونا کافی ہے؟ یا پڑھنے والے کا رخ میت کی طرف ہونا چاہیے؟ اگر کسی نے میت کے سرہانے کھڑے ہوکر قبلہ رخ ہوکر آیات تلاوت کیں، اور پھر پائنتی والے شخص نے بھی سرہانے والے شخص کی وجہ سے (کہ اگر وہ میت کی طرف رخ کرے گا تو لوگ سرہانے والے کو غلط سمجھیں گے، گویا اس موقع پر اسے اعتراض سے بچانے کے لیے) میت کے پاؤں کی جانب قبلہ رخ کھڑے ہوکر آخری آیات پڑھ کر قبلہ رخ ہوکر دعا کی تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح استحباب ادا ہوجائے گا؟

جواب

 میت کو دفنانے کے بعد جب مٹی ڈالنے کا کام مکمل ہوجائے تو ایک شخص سرہانے کھڑے ہو کر سورہ بقرہ کا اول ( الم) تا (مفلحون) تک اوردوسرا شخص میت کے پائنتی کھڑے ہوکر سورہ بقرہ کا آخر ( آمن الرسول) سے سورت کے اختتام تک پست آواز سے پڑھے، اور حدیث سے ثابت ہے،  اس حدیث میں سرہانے اور پائنتی کھڑے ہوکر مذکورہ آیات کا پڑھنا مذکور ہے، البتہ کھڑے ہونے کی ہیئت کہ پڑھنے والے کا رخ کس جانب ہو، اس حوالہ سے کوئی صراحت نہیں، جس کی وجہ سے فقہاء کرام نے بھی کوئی قید نہیں لگائی ہے، پس مسئولہ صورت میں اگر قبر کی طرف منہ نہیں کیا تھا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، استحباب ادا ہوگیا۔

١٧١٧ - وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "«إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ فَلَاتَحْبِسُوهُ، وَ أَسْرِعُوا بِهِ إِلَى قَبْرِهِ، وَ لْيُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِهِ فَاتِحَةُ الْبَقَرَةِ، وَ عِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ»" رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ وَقَالَ: وَ الصَّحِيحُ أَنَّهُ مَوْقُوفٌ عَلَيْهِ.  (وَلْيُقْرَأْ) بِالتَّذْكِيرِ وَيُؤَنَّثُ، وَبِسُكُونِ اللَّامِ وَيُكْسَرُ. (عِنْدَ رَأْسِهِ فَاتِحَةَ الْبَقَرَةِ) أَيْ: إِلَى الْمُفْلِحُونَ. (وَعِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ) وَفِي نُسْخَةٍ خَاتِمَةِ. (الْبَقَرَةِ) أَيْ: مِنْ. (آمَنَ الرَّسُولُ) إِلَخْ. قَالَ الطِّيبِيُّ: لَعَلَّ تَخْصِيصَ فَاتِحَتِهَا لِاشْتِمَالِهَا عَلَى مَدْحِ كِتَابِ اللَّهِ، وَأَنَّهُ هَدًى لِلْمُتَّقِينَ، الْمَوْصُوفِينَ بِالْخِلَالِ الْحَمِيدَةِ مِنَ الْإِيمَانِ بِالْغَيْبِ، وَإِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَخَاتِمَتِهَا لِاحْتِوَائِهَا عَلَى الْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ، وَإِظْهَارِ الِاسْتِكَانَةِ، وَطَلَبِ الْغُفْرَانِ وَالرَّحْمَةِ، وَالتَّوَلِّي إِلَى كَنَفِ اللَّهِ تَعَالَى وَحِمَايَتِهِ. (رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ وَقَالَ: وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ مَوْقُوفٌ عَلَيْهِ) أَيْ: عَلَى ابْنِ عُمَرَ."

(مرقاة المفاتيح، بَابُ دَفْنِ الْمَيِّتِ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ، ٣ / ١٢٢٨)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200188

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں