بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تدفین میں تاخیر ہونے کی صورت میں تدفین سے پہلے قبر کو دوبارہ بند کرنا چاہیے یا نہیں؟


سوال

میت کے انتقال کے بعد قبر بنادی گئی اور کسی وجہ سے نماز جنازہ اور تدفین میں ایک دن تاخیر کی گئی تو اس کھلی قبر کو دوبارہ بند کر دیا جائے یا اس بارے میں کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں!

جواب

جب کسی کی موت کا یقین ہوجائے تواس کی تجہیز وتکفین اور تدفین میں  جلدی کرنا مسنون ہے،میت کو غسل دینے اور تکفین وتدفین کے انتظام کے بعد نمازِ جنازہ میں تاخیر سے حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے، نیز نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو جلد دفن کرنے کا حکم بھی حدیث مبارک میں وارد ہے، لہٰذا کسی شرعی عذر یا قانونی مجبوری کے بغیر تکفین، نمازِ جنازہ اور  تدفین وغیرہ میں تاخیر کرنا خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو مکروہ ہے، اس سے میت  کی بے حرمتی ہوتی ہے ،اور اگر  لاش  پھول جائے یا پھٹ جائے تو نمازِ  جنازہ کے قابل نہیں  رہتی، نیز  میت کا چہرہ دیکھنا فرض ، واجب  یا میت کا لازمی حق نہیں ہے،  لہٰذا نمازِ جنازہ کے بعد صرف چہرہ دکھانے کے لیے تدفین میں تاخیر کرنا بھی مکروہ اور خلافِ سنت ہے۔ لیکن بہرحال اگر قبر کھودنے کے بعد تدفین میں تاخیر ہورہی ہو تو قبر کو دوبارہ بند کرنا ضروری نہیں ہے۔
علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"(قوله: ويسرع في جهازه)؛ لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء وانصرف، قال: ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه، وعجلوا به؛ فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله». والصارف عن وجوب التعجيل الاحتياط للروح الشريفة؛ فإنه يحتمل الإغماء".  (2/ 193)

ترجمہ: " میت کی تجہیز و تکفین میں  جلدی کی جائے ، اس حدیث کی بنا پر جوا بو داوٗد نے روایت کی ہے کہ جب آں حضورﷺ طلحہ بن براء رضی  اللہ عنہ کی عیادت کر کے واپس لوٹے تو آپ ﷺ  نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ ان میں  موت سرایت کر چکی ہے ، جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے خبر کر نا؛ تاکہ میں  ان کی نماز پڑھاؤں  اور ان کی تجہیز و تکفین میں  جلدی کرو ، اس لیے کہ مسلمان کی نعش کے لیے مناسب نہیں  ہے کہ اس کو اس کے گھر والوں  کے درمیان روکا جائے"۔ اور میت پر موت کا اثر ظاہر ہوتے ہی فوراً تدفین اس لیے واجب نہیں کی گئی کہ کہیں یہ بے ہوشی نہ ہو، یعنی جب موت کا اطمینان ہوجائے تو پھر تدفین میں جلدی لازم ہوگی۔ (شامی )

البحر الرائق شرح كنز الدقائق(2/ 206):

"(قوله: ويعجل به بلا خبب) وهو بمعجمة مفتوحة وموحدتين ضرب من العدو، وقيل: هو كالرمل وحد التعجيل المسنون أن يسرع به بحيث لا يضطرب الميت على الجنازة؛ للحديث: «أسرعوا بالجنازة، فإن كانت صالحةً قربتموه إلى الخير، وإن كانت غير ذلك فشر تضعونه عن رقابكم». والأفضل أن يعجل بتجهيزه كله من حين يموت، ولو مشوا به بالخبب كره؛ لأنه ازدراء بالميت وإضرار بالمتبعين، وفي القنية، ولو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة يكره تأخير الصلاة ودفنه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  (ص: 604):

 "وكذا يستحب الإسراع بتجهيزه كله" أي من حين موته فلو جهز الميت صبيحة يوم الجمعة يكره تأخير الصلاة عليه ليصلي عليه الجمع العظيم بعد صلاة الجمعة، ولو خافوا فوت الجمعة بسبب دفنه يؤخر الدفن اهـ".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200748

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں