بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

واقعہ عہد عمر رضی اللہ عنہ کی تحقیق


سوال

 حضرت عمر ؓ کا مندرجہ ذیل واقعہ میں نے پڑھا تھا۔ مگر بھول گیا ہوں کس کتاب میں پڑھاتھا۔ یا تو کتاب " فاروق اعظم " از علامہ شبلی نعمانی " یا حیاة الصحابہ ؓ تین جلدیں یا پھر کوئي اور کتاب ۔ آپ سے عرض ہے کہ مجھے حوالے سے مطلع فرمائیں تاکہ میں معافی کی بابت حضرت عمر ؓ کا فتویٰ حوالے کے ساتھ لوگوں تک پہنچا سکوں۔

امیرالمؤمنین حضرت عمر ؓ کا دور خلافت تھا،  کسی جگہ کوئی کھیل تماشہ یا کسی قسم کا لوگوں کا مجمع جمع تھا،  ایک شخص نے اپنے  سامنے تھوڑا آگے کھڑے ہوئے شخص کو جھڑکا " اے ہٹو سامنے سے"  وہ شخص پلٹا مگر ایک رئیس، با اثر اور زور آور شخص کو دیکھ کر خاموشی سے ایک طرف ہوگیا،  جس رئیس نے اس کمزور کو جھڑکا تھا اسے گھر جاکر خیال آیا کہ میں نے غلط کیا ۔ ایک انسان کی اہانت کی،  دل آزاری کی۔  مجھے اس سے معافی مانگنی چاہیے،  یہ سوچ کر اس نے بجاۓ اپنے ملازم کے ذریعے اس کو بلوانے کے ،  خود چل کر اس کے گھر گیا اور اس شخص سے بولا کہ مجھے احساس ہوا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی اس  لیے خود  چل کر تمھارے پاس آیا ہوں اور معافی بھی مانگتا ہوں اور ہرجانے کے طورپر اتنی بھیڑیں تم کو دیتا ہوں ،  تم مجھے معاف کردو۔ وہ شخص بولا " میں تو نہیں معاف کرتا " اس رئیس کو حیرت بھی ہوئی  اور غصہ بھی آیا۔ اسی غصے کے عالم میں وہ اس کی شکایت کرنے امیرالمؤمنین حضرت عمر ؓ کے ہاں پہنچا۔ سارا ماجر سنایا ۔ امیرالمؤمنین نے کچھ دیر خاموشی اختیار کی،  سوچتے رہے،  پھر فرمایا: "واپس جاؤ ،  اسے کچھ مزید پیشکش کرو اور اسے مناؤ؛ کیوں کہ معاملہ بہت سنگین ہے،  تمھارے بہت سے نیک اعمال کا نقصان ہو سکتا ہے۔"  تب وہ رئیس دوبارہ اس کمزور اور غریب آدمی کے پاس گیا اور بولا میں معافی بھی مانگتا ہوں اور بھیڑوں کی تعداد میں اتنا اضافہ کرتا ہوں،  مجھے معاف کردو۔ وہ شخص بولا: " ہاں اب میں راضی ہوں اور اس تمام کے عوض تمھیں معاف کرتا ہوں۔"

یہ ہے ہمارے دین میں معافی کا طریقہ۔ غیر مسلموں کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ بھی اذیت دے کر ، نقصان کرکے سوری کہہ دیا اور چل دیے۔ کچھ ناواقف لوگ بھی آجاتے ہیں  معافی مانگنے والے ظالم کی حمایت میں،  مظلوم کی داد رسی کرنے کے بجاۓ اس پر دباؤ ڈالنے کہ "معاف کردو بھائی  وہ معافی مانگ رہا ہے ،  اللہ بھی معاف کردیتاہے۔"   وغیرہ وغیرہ۔

جواب

تلاش کے باوجود كتب سير ميں ہمیں یہ واقعہ نہ مل سکا ۔فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201825

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں