بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مرتبہ تحریری طلاق دینے کا حکم


سوال

میری شادی افریقا میں ہوئی تھی،  میں جب پاکستان آئی تو میرے شوہر نے مجھے واپس نہیں بلایا اور چار سال بعد مجھے ایک پرچے پر طلاق لکھ کر بھیج دی۔ اب کافی سال ہوگئے ہیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے منہ سے کچھ نہیں کہا اور صرف ایک دفعہ لکھ کر بھیجنے سے طلاق نہیں ہوئی۔ آپ مجھے بتائیے کہ کیا صحیح ہے؟  اور اگر میں دوبارہ رجوع کرنا چاہوں تو کیا یہ ممکن ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایک ہے "طلاق واقع کرنا" اور دوسرا ہے "بیوی کا شوہر پر حرام ہوجانا"۔

طلاق واقع کرنے کے متعلق حکم یہ ہے کہ جیسے زبان سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، ایسے ہی تحریری طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔

بیوی کے شوہر پر حرام ہوجانے  سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ طلاق کی بعض صورتوں میں بیوی شوہر پر حرام نہیں ہوتی، (مثلاً: ایک یا دو رجعی طلاق کی صورت میں عدت کے دوران) اور بعض طلاق کی صورتوں میں بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے، لیکن تجدیدِ نکاح کے بعد دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں (جیسے ایک یا دو بائن طلاقیں، یا ایک یا دو رجعی طلاقوں کی عدت کے بعد) اور بعض صورتوں میں تجدیدِ  نکاح بھی نہیں کرسکتے (جیسے تین طلاقیں)۔

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کے شوہر نے آپ کو جو تحریری طلاق دی تھی وہ طلاق واقع ہوچکی تھی۔ تاہم آپ کا شوہر کے ساتھ دوبارہ ساتھ رہنے کی گنجائش ہے یا نہیں، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر نے طلاقِ بائن دی تھی یا طلاقِ رجعی دی تھی، مگر عدت میں رجوع نہیں کیا تھا تو اب دوبارہ نئے مہر کے تقرر کے ساتھ شرعی گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کرنا ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1 / 378):
"الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرًا ومعنونًا، مثل ما يكتب إلى الغائب وغير موسومة أن لايكون مصدرًا ومعنونًا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته، وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لايمكن فهمه وقراءته، ففي غير المستبينة لايقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينةً لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع، وإلا فلا، وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لاتخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد! فأنت طالق، فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104201075

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں