بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تحری سے سمت قبلہ کی تعیین


سوال

کسی نے نماز پڑھی اور یہ گمان کیا کہ قبلہ کا رخ اسی طرف ہے، اور پھر نماز کے بعد معلوم ہوا کہ قبلہ اس طرف نہ تھا۔ تو اب نماز لوٹائے گا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ سمتِ قبلہ کی تعیین میں تحری (اندازا  لگاکر غالب گمان پر عمل) کرنا اس وقت جائز ہے جب کسی دوسرے طریقے سے قبلہ کا تعین کرنا ممکن نہ ہو،  اگر کسی سے پوچھنا ممکن ہو اور نہ پوچھا، بلکہ تحری کر لی تو ایسی تحری کے درست ہونے کی صورت میں تو نماز درست ہو  جائے گی، لیکن اگر تحری غلط واقع ہو جائے تو نماز درست نہ ہو گی۔

 لہذا اگر مذکورہ شخص نے قریب میں افراد کے موجود ہوتے ہوئے ان سے نہیں پوچھا اور تحری کر لی اور وہ تحری غلط ثابت ہوئی تو  اس  کی نماز درست نہ ہوئی، اس نماز کو دہرانا ضروری ہو گا۔

ہاں! اگر کوئی موجود ہی نہیں تھا جس سے سمتِ قبلہ کی تعیین کروائی جا سکتی ہو  اور آثار سے بھی قبلہ رُخ متعین نہ ہو اور تحری کر کے نماز پڑھ لی اور بعد میں معلوم ہوا کہ سمت درست نہ تھی تو ایسی صورت میں نماز درست ہو جائے گی، دہرانے کی ضرورت نہ ہو گی۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 433):
"فأفاد أنه لايتحرى مع القدرة على أحد هذه، حتى لو كان بحضرته من يسأله فتحرى ولم يسأله إن أصاب القبلة جاز؛ لحصول المقصود وإلا فلا؛ لأن قبلة التحري مبنية على مجرد شهادة القلب من غير أمارة، وأهل البلد لهم علم بجهة القبلة المبنية على الأمارات الدالة عليها من النجوم وغيرها، فكان فوق الثابت بالتحري".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104201001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں