بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجدید نکاح کے لیے عورت کی رضا لازم ہے


سوال

میں نے اپنی بیوی کو دین کی نا واقفیت کی وجہ سے ایسے الفاظ بول دیے جس  کی وجہ سے ہماری درمیان طلاقِ بائن ہو گئی، میں نے دل سے سب سے معافی بھی مانگی ہے اور میں ہر صورت میں اسے تجدیدِ نکاح  کر کے پھر سے بیوی بنانا چاہتا ہوں تا کہ میں اپنا گناہ معاف کروا سکوں، لیکن اب میری بیوی میری نہ تو عزت کرتی ہے اور بہت برا بھلا بھی کہتی ہے، میرے ماں باپ کو بھی نہیں بخشا ،لیکن میں سنتا رہا؛ کیو ں کہ غلطی میری تھی، لیکن اب وہ عجیب سی شرائط رکھ رہے ہیں جیسے کہ ہر بات مانو گے چاہے پیسے ہوں یا نہ  ہوں، میں بالکل بھی  نہیں سنوں گی، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میں نے الگ گھر بھی لے لیا ہے۔ اب ایسی حالت میں کیا کروں! کچھ سمجھ نہیں آ رہا،  چھوڑتا ہوں تو گناہ کا سن کر کانپ جاتا ہوں، کوئی مشورہ عنایت فرما دیں اور اس گناہ سے کیسے بچاؤں نماز اور استغفار کرتا رہتاہوں!

جواب

طلاقِ بائن کے بعد تجدیدِ نکاح لازم ہے ، تجدیدِ نکاح کے بغیر اکٹھے رہنا جائز نہیں ، نیز تجدیدنکاح کے لیے فریقین  یعنی مرد وعورت میں سے ہر ایک کی رضامندی لازم ہے ،باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کے بعد ساتھ رہنا جائز ہوگا۔

نیز نکاح کے رشتہ کی پائیداری کے لیے ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ،تقویٰ اورخوفِ خدالازمی بنیاد ہے۔گالم گلوچ کرنا ،یامرد کے والدین کی بے عزتی کرنا شرعاً ناجائز ہے،حدیث شریف کے مطابق مسلمان مرد یا عورت کے لیے فحش گفتگو ، لعن طعن کرنایاگالم گلوچ کرنا سخت گناہ کی بات ہے،لہذا عورت کو اس طرح کے ارتکاب سے اپنے آپ کوبچانالازم ہے۔حدیث شریف میں ہے :

''حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کامل) مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعن کرنے والا ،نہ فحش گوئی کرنے والا ہوتا ہے ، نہ زبان درازی کرنے والا ''۔(مشکوۃ)

شوہر تجدیدِ نکاح کے بعد آئندہ حقوق وذمہ داریوں کی ادائیگی کا پختہ عزم کرتاہو اور اپنی ناانصافی پر معافی کا خواست گار ہوتو عورت کو باہمی رشتہ کوبرقرار رکھنے اور اتحاد واتفاق کو قائم رکھنے کے لیے گزشتہ احوال کو بھلاکرمعاف کردیناچاہیے اور اس بندھن کو دوبارہ مضبوط کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔میاں بیوی کے درمیان افتراق اور جدائی یہ شیطانی اثرات اور شیطان کے ورغلانے کا نتیجہ ہوتے ہیں، اوریہ شیطان کا محبوب مشغلہ جس سے وہ بہت خوش ہوتاہے۔جیساکہ مشکوۃ شریف کی روایت میں ہے:

''حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابلیس اپنا تختِ حکومت پانی (یعنی سمندر) پر رکھتا ہے۔ پھر وہاں سے اپنی فوجوں کو روانہ کرتا ہے؛ تاکہ لوگوں کو فتنہ اور گم راہی میں مبتلا کریں۔ اس کی فوجوں میں ابلیس کا سب سے بڑا مقرب وہ ہے جو سب سے بڑا فتنہ انداز ہو۔ ان میں سے ایک واپس آکر کہتا ہے: میں نے فلاں فلاں فتنے پیدا کیے  ہیں۔ ابلیس اس کے جواب میں کہتا ہے : تو نے کچھ نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے! میں نے (ایک بندہ کو گم راہ کرنا شروع کیا اور ) اس وقت تک اس آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑا جب تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈلوا دی۔ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ابلیس ( یہ سن کر) اس کو اپنے قریب بٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو نے اچھا کام کیا ۔ (حدیث کے ایک راوی) اعمش فرماتے ہیں میرا خیال ہے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بجائے (فیدنیہ کے) فیلتزمہ (پس ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے) کے الفاظ نقل کیے تھے''۔

لہذا بیوی کو سمجھا کر اسے نکاح کے بندھن کے دوبارہ جوڑنے پر آمادہ کیاجائے،اور عورت کا یہ شرط لگانا کہ ہربات کا ماننالازم ہوگا، چاہے پیسے ہوں یا نہ ہوں ، نہایت غیر مناسب ہے۔شوہر کے لیے بھی ایسی کوئی شرط ماننا درست نہیں ہے۔آپ اپنی طرف سے خاندان کے کسی بزرگ یا کسی بھی ذمہ دار شخص کو درمیان ڈال کر بات آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اصل مقصد ہے باہمی اتفاق واتحاد قائم رہے ،ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ ہو اوردین پر عمل کرتے رہیں تواللہ تعالیٰ برکتیں عطا فرماتے ہیں ،لہذا غیرشرعی شرائط کے بجائے شریعت کو مقدم رکھتے ہوئے ،اللہ تعالیٰ کی ذات سے بہتری کی امید رکھ کر آپس کے بندھن کو جوڑنا چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں