بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارتی مال میں تجارت کی نیت ختم کرلی تو زکاۃ کا حکم


سوال

میں نے خام مال اس نیت سے خریدا تھا کہ اس سے اشیاء تیار کرکے تجارت کروں گی، پھر ایک سال ایسا ہی گزرا کہ نیت رہی اور میں نے اس کی زکات  نکال دی، پھر اس کے بعد اب اس سے تجارت کی نیت باقی نہیں رہی تو کیا اب زکات اس مال پر نکالی جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ خام مال میں تجارت کی نیت ختم کرلی (خواہ ذاتی استعمال کا ارادہ ہو یا کسی اور مقصد میں صرف کرنا ہو) تو اب اس کی زکاۃ  ادا کرنا لازم نہیں ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 272):
"(لايبقى للتجارة ما) أي عبد مثلاً (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لايصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. 

(قوله: أي عبد) خصه بالذكر ليناسب قوله فنوى خدمته، وأشار بقوله مثلا إلى أن العبد غير قيد، لكن الأولى أن يقول بعده فنوى استعماله ليعم مثل الثوب والدابة، ولا بد من تخصيصه بما تصح فيه نية التجارة ليخرج ما لو اشترى أرضا خراجية، أو عشرية ليتجر فيها فإنها لا تجب زكاة التجارة كما يأتي ونبه عليه في الفتح (قوله: فنوى بعد ذلك خدمته) أي، وأن لايبقى للتجارة لما في الخانية عبد التجارة: إذا أراد أن يستخدمه سنتين فاستخدمه فهو للتجارة على حاله إلا أن ينوي أن يخرجه من التجارة ويجعله للخدمة. اهـ". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200748

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں