بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تاش گیم فلیش پر پیسہ لگا کر کھیلنا اور آخر میں اپنا اپنا پیسہ واپس لے لینا


سوال

تاش کی گیم فلیش میں پیسے لگا کر کھیلتے ہیں، لیکن گیم جیتنے یا ہارنے پر وہ پیسے لیتے نہیں،  بلکہ گیم کے بعد سب اپنے پیسے واپس لے لیتے ہیں یا اگلی گیم کے لیے رکھ دیتے ہیں،  کیا یہ پیسہ لگا کر کھیلنا جائز ہے یا حرام ہے؟ 

جواب

تاش، و شطرنج و دیگر اس قسم کے کھیلوں کی شریعت میں ممانعت وارد ہوئی ہے، خصوصاً جب کہ اس میں جوئے کی ایک شکل بھی اختیار کرلی جائے، تو ممانعت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، پس صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کھیل کھیلنا جائز نہیں۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاريمیں ہے:

"عَن عَليّ رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، أَنه قَالَ: الشطرنج من الْقمَار، وَقَالَ ابْن أبي حَاتِم: حَدثنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الأحمسي حَدثنَا وَكِيع عَن سُفْيَان أَن اللَّيْث وَعَطَاء ومجاهداً وَطَاوُس، قَالُوا: كل شَيْء من الْقمَار فَهُوَ الميسر حَتَّى لعب الصّبيان بالجوز، وروى عَن رَاشد بن سعد وَحَمْزَة بن حبيب مثله، قَالَا: حَتَّى الكعاب والجوز وَالْبيض الَّتِي يلْعَب بهَا الصّبيان، وَقَالَ ابْن كثير فِي (تَفْسِيره): وَأما الشطرنج فقد قَالَ عبد الله بن عمر: أَنه شَرّ من النَّرْد، وَنَصّ على تَحْرِيمه مَالك وَأَبُو حنيفَة وَأحمد، وَكَرِهَهُ الشَّافِعِي. قلت: إِذا كَانَ الشطرنج شراً من النَّرْد فَانْظُر مَا قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فِي النَّرْد، رَوَاهُ مَالك فِي (الْمُوَطَّأ) وَأحمد فِي (مُسْنده) وَأَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه فِي (سنَنَيْهِمَا عَن) أبي مُوسَى الْأَشْعَرِيّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: (من لعب بالنرد فقد عصى الله وَرَسُوله). وروى مُسلم عَن بُرَيْدَة بن الْحصيب الْأَسْلَمِيّ، قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: (من لعب بالنرد شير فَكَأَنَّمَا صبغ يَده بِلَحْم خِنْزِير وَدَمه) .( ١٠ - (بابُ قَوْلِهِ: {إنَّما الخَمْرُ وَالمَيْسَرُ وَالأنْصابُ وَالأزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ} (الْمَائِدَة: ٩٠)، ١٨ / ٢٠٨)

مشكاة المصابيحمیں ہے:

" ٤٥١٠ - وَعَنْ عَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: الشَّطْرَنْجُ هُوَ مَيْسِرُ الْأَعَاجِمِ".

مرقاة المفاتيحمیں ہے:

"٤٥١٠ - (وَعَنْ عَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: الشِّطْرَنْجُ) : بِكَسْرِ أَوَّلِهِ مُعَرَّبُ شَشْ رَنْجَ، أَيْ سِتُّ مِحَنٍ. وَقِيلَ بِفَتْحِهَا. وَهُوَ مُعَرَّبُ رَنْجَ أَيْ سَاحِلُ التَّعَبِ، وَلَايُفْتَحُ أَوَّلُهُ لُعْبَةٌ مَعْرُوفَةٌ، وَالسِّينُ لُغَةٌ فِيهِ. (هُوَ مَيْسِرُ الْأَعَاجِمِ) : أَيْ قِمَارُهُمْ حَقِيقَةً أَوْ صُورَةً وَالتَّشَبُّهُ بِهِمْ مَنْهِيٌّ عَنْهُ، أَوْ أَرَادَ أَنَّهُ دَخَلَ فِي عُمُومِ الْمَيْسِرِ الْمَنْهِيِّ عَنْهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، هَذَا وَأَمَّا الشَّرْطُ بِهِ فَحَرَامٌ مُجْمَعٌ عَلَيْهِ".

مشكاة المصابيحمیں ہے:

"٤٥١١ - وَعَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ قَالَ: لَايَلْعَبُ بِالشَّطْرَنْجِ إِلَّا خَاطِئٌ".

مرقاة المفاتيحمیں ہے:

"وَذَهَبَ جَمَاعَاتٌ مِنْ أَصْحَابِ الْحَنَفِيَّةِ إِلَى تَحْرِيمِهِ كَالنَّرْدِ، هَذَا، وَفِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ: «مَلْعُونٌ مَنْ لَعِبَ بِالشَّطْرَنْجِ، وَالنَّاظِرُ إِلَيْهَا كَالْآكِلِ لَحْمَ الْخِنْزِيرِ» . وَرَوَاهُ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي مُوسَى، وَابْنُ حَزْمٍ عَنْ حَبَّةَ بْنِ مُسْلِمٍ مُرْسَلًا، وَالْمُرْسَلُ حُجَّةٌ عِنْدَ الْجُمْهُورِ، وَقَدْ تَعَاضَدَتِ الْأَحَادِيثُ الْكَثِيرَةُ الطُّرُقِ فِي هَذَا الْمَعْنَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ". ( ٧ / ٢٨٥٨ )

البحر الرائق شرح كنز الدقائقمیں ہے:

"قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ (وَاللَّعِبُ بِالشِّطْرَنْجِ وَالنَّرْدِ وَكُلُّ لَهْوٍ) يَعْنِي لَايَجُوزُ ذَلِكَ؛ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «كُلُّ لَعِبِ ابْنِ آدَمَ حَرَامٌ إلَّا ثَلَاثًا: مُلَاعَبَةَ الرَّجُلِ أَهْلَهُ، وَتَأْدِيبَهُ لِفَرَسِهِ، وَمُنَاضَلَتَهُ لِقَوْسِهِ» ....وَالْحُجَّةُ عَلَيْهِ مَا رَوَيْنَا، وَالْأَحَادِيثُ الْوَارِدَةُ فِي ذَلِكَ هِيَ كَثِيرَةٌ شَهِيرَةٌ فَتَرَكْنَا ذِكْرَهَا لِشُهْرَتِهَا وَفِي الْمُحِيطِ وَيُكْرَهُ اللَّعِبُ بِالشِّطْرَنْجِ (وَاللَّعِبُ بِالشِّطْرَنْجِ  وَالنَّرْد،  ٨ / ٢٣٥)

تنوير الأبصار مع الدر المختارمیں ہے:

"(وَ) كُرِهَ تَحْرِيمًا (اللَّعِبُ بِالنَّرْدِ وَ) كَذَا (الشِّطْرَنْجِ) بِكَسْرِ أَوَّلِهِ وَيُهْمَلُ وَلَا يُفْتَحُ إلَّا نَادِرًا وَأَبَاحَهُ الشَّافِعِيُّ وَأَبُو يُوسُفَ فِي رِوَايَةٍ وَنَظَمَهَا شَارِحُ الْوَهْبَانِيَّةِ فَقَالَ: وَلَا بَأْسَ بِالشِّطْرَنْجِ وَهِيَ رِوَايَةٌ ... عَنْ الْحَبْرِ قَاضِي الشَّرْقِ وَالْغَرْبِ تُؤْثَرُ وَهَذَا إذْ لَمْ يُقَامِرْ وَلَمْ يُدَاوِمْ وَلَمْ يُخِلَّ بِوَاجِبٍ وَإِلَّا فَحَرَامٌ بِالْإِجْمَاعِ".

رد المحتارمیں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَالشِّطْرَنْجُ) مُعَرَّبُ شِدْرَنْجَ، وَإِنَّمَا كُرِهَ لِأَنَّ مَنْ اشْتَغَلَ بِهِ ذَهَبَ عَنَاؤُهُ الدُّنْيَوِيُّ، وَجَاءَهُ الْعَنَاءُ الْأُخْرَوِيُّ فَهُوَ حَرَامٌ وَكَبِيرَةٌ عِنْدَنَا، وَفِي إبَاحَتِهِ إعَانَةُ الشَّيْطَانِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِينَ، كَمَا فِي الْكَافِي قُهُسْتَانِيٌّ". (شامي، ٦ / ٣٩٤) 

ایک حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ آؤ جوا کھیلیں، تو (صرف اس کہنے پر بھی) اسے چاہیے کہ وہ صدقہ دے۔ یعنی جوا کھیلنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ مذاق میں صرف زبان سے کھیلنے کا ارادہ ظاہر کرنا بھی شرعاً جرم ہے، اس پر گناہ کی تلافی اور کفارے کے لیے آپ ﷺ نے صدقہ کا حکم فرمایا ہے، لہٰذا مذکورہ کھیلوں میں اگرچہ ہار جیت کی صورت میں پیسہ دینا مقصود نہ بھی ہو، عمل اور شکل میں جوا پایا جارہاہے جو بہر حال صرف زبانی طور پر جوے کے ارادے سے بڑھ کر گناہ ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں