بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کی پسند کی شادی اور والد کا الگ گھر جانے کا حکم


سوال

میرا 24 سال کا ایک بیٹا ہے، سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا بزنس کرتا ہے، اس کی ایک لڑکی سے دوستی ہے، وہ فوٹو گرافی کرتی ہے، میرا بیٹا اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے، پسند کی شادی پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، مگر پسند بھی تو ایسی ہو کہ آپ کی آئندہ آنے والی نسلیں دین سے دور نہ ہوں، میرے شوہر نے کافی سمجھایا، مگر بیٹا نہیں مان رہا، یہ بھی کہہ دیا کہ اپنا الگ رہنے کا انتظام کرو، میرا ایک ہی بیٹا ہے، مجھے بھی وہ لڑکی اپنے بیٹے کے لیے بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی۔

میرے شوہر کا ایسا کہنا  "الگ گھر میں رہو" جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے نکاح کے معاملہ میں والدین اور اولاد دونوں کو حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کی پسند کی رعایت کریں، والدین اپنے بچوں کا  کسی ایسی جگہ نکاح نہ کروائیں جہاں وہ بالکل راضی نہ ہوں، اسی طرح بچے ایسی جگہ نکاح کرنے پر مصر نہ ہوں جہاں والدین بالکل راضی نہ ہوں، لہذا سائلہ کے بیٹے کو چاہیے کہ وہ نکاح کے معاملہ میں اپنے والدین کی پسند کی خوب رعایت کرے، اور اس سلسلے میں ازروئے حدیث دین داری کو ترجیح دے کر ایسی جگہ رشتہ کرے جہاں دینی ماحول اور اَحکام کی رعایت ہوسکے۔

اور اگر آپ کے شوہر نے اپنے بیٹے کو یہ کہہ دیا کہ الگ گھر میں رہو تو ان کا ایسا کہنا جائز ہے؛ اس لیے کہ والد کے اوپر اپنے بیٹوں کی ذمہ داری بلوغت تک کی ہوتی ہے اور جب وہ کمانے کے لائق ہو جائیں تو والد پر ان کی کفالت لازم نہیں، لہذا اگر وہ اس کو الگ رہنے کا کہتے ہیں تو اس میں شرعاً حرج نہیں ہے۔ تاہم اگر وہ ناراض ہوکر بیٹے سے یہ بات کہہ رہے ہیں تو بیٹے کو چاہیے کہ وہ والد کو راضی کرے، کیوں کہ والد کی ناراضی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔

باقی آپ کا بیٹا اگر میڈیا کے ایسے شعبہ سے وابستہ جہاں جان دار کی تصویر سازی ہوتی ہو تو ایسے ملازمت اور پیشہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے، نیز  مذکورہ لڑکی بھی فوٹو گرافی کے پیشے سے منسلک ہے، اگر وہ بھی جان دار کی عکس بندی کرتی ہے تو یہ بھی ناجائز ہے، ان دونوں کا رشتہ ہو یا نہیں، انہیں شرعی حکم سے آگاہ کرنا چاہیے اور حکمت سے اس پیشے سے روکنا چاہیے۔

الفتاوى الهندية (1/ 563):
"ولايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزاً عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں