ایک آدمی نے نذر مانی کہ میرے ہاں بیٹا ہوا تو اس کو حافظ بنائیں گے، اب اس کو حفظ کروا رہے ہیں، مگر وہ ذہناً کم زور ہے اور اگلا یاد کرتا ہے پچھلا بھول جاتا ہے۔دو سال میں اس نے صرف ایک پارہ حفظ کیا ہے۔ اب ایسی صورت میں ہم اس کو حفظ نہ کروائیں، بلکہ اس کی جگہ اپنے دوسرے بیٹے کو حافظ بنانے کا ارادہ کر لیں تو کیا ایسی صورت میں ہم نذر پوری نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے؟یا ہم پر کسی قسم کا کفارہ لازم تو نہیں آئے گا؟
بیٹے کو حافظ بنانے کی نذر شرعاً منعقد نہیں ہوتی اور اس پر نذر کے احکامات جاری نہیں ہوتے، لیکن بہرحال یہ اللہ تعالی سے ایک وعدہ ہوتا ہے؛ اس لیے حتی الامکان اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے،اگر بیٹا ذہناً کم زور ہے، اور خرافات سے پاک حفظِ قرآن کے لیے موافق ماحول میسر کرنے کے باوجود اس کے لیے قرآن یاد کرنا مشکل ہورہا ہواور اساتذہ بھی اس نتیجے پر پہنچ گئے ہوں کہ اس کاحفظ کرنا مشکل ہے تو حفظ نہ کرانے کی وجہ سےوالدین گناہ گار نہیں ہوں گے۔ البتہ قرآن پاک کا جتنا حصہ ہوسکے وہ یاد کرلے اور اسے پختہ رکھنے کی کوشش کرتارہے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200457
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن