عرصہ 12 سال قبل باپ نے بیٹے کو دکان میں کام کرنے کا موقعہ دیا اور بیٹے کی محنت اور کام کی صلاحیت دیکھ کر بیٹے اور باپ میں یہ بات اتفاقِ رائے سے طے ہوئی کہ جب تک بیٹے کو ملازمت نہیں ملتی اس وقت تک بیٹا دکان کی تمام ذمہ داریاں سنبھالنے کے علاوہ گھر چلانے کی تمام ذمہ داریاں سنبھالے گا، اور باپ اس کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے، لیکن بیٹا دکان کی بحیثیت فرد کام اور ذمہ داریاں پوری کریں گے اور جس وقت رقم دست یاب ہو بغیر کسی لیت ولعل کے حسبِ ضرورت بیٹے سے پیسے لے سکتا ہے، اور اصل مالک باپ ہے اور جب چاہے بیٹے کو دکان سے بے دخل کرسکتاہے، اب چوں کہ باپ بیماری کی وجہ سے علاج کے لیے پیسے مانگ رہا ہے تو بیٹا انکاری ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کاروبار کا مالک والد ہی ہے، بیٹے کی دکان میں حیثیت معاون اور مدگار کی ہے، اس کاروبارسے ہونے والی سب بڑھوتری کی ملکیت بھی والد ہی کی ہے، اور والد اپنے کاروبار سے رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے، بیٹے کا باپ کے اس کے اپنے کاروبار کی رقم نہ دینا شرعاً ظلم اور گناہ ہے۔
اس مسئلہ سے قطع نظر بھی اگر والد کے پاس مال نہ ہو اور وہ تنگ دست ہو اور بیٹا صاحبِ حیثیت ہو تو اس پر والد کا نفقہ لازم ہے، نیز والد سے حسنِ سلوک کی شریعت میں بہت تاکید آئی ہے، والد کے علاج کا بندوبست کرنا ان کے ساتھ حسنِ سلوک ہے، جو بیٹے کے ذمے لازم ہے، لہذا بیٹے کو والد کے علاج کی ہر ممکن ضرورت پوری کرنی چاہیے۔
اگر بیٹا سمجھانے کے باوجود اخراجات ادا کرنے اور ملکیت واپس کرنے پر آمادہ نہ ہو اور والد نے بیٹے کو اختیارات دیتے وقت کوئی تحریر وغیرہ لکھی تھی یا والد کے پاس گواہ موجود ہیں تو اس کی بنیاد پر والد قانونی کار روائی کا حق رکھتاہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144104200805
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن