بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی یا بیٹا میں سے کوں افضل ہے؟


سوال

اولاد میں بیٹی بہتر اور بیٹے بہترین ہیں، اس لیئے دعا میں بیٹا یعنی بہترین مانگنا چاہیئے، کیا اسلامی نظریہ کے مطابق یہ بات درست ہے؟

جواب

اولاد اللہ پاک کی نعمت ہے، خواہ بیٹا ہو یا بیٹی۔ اصل اولاد کا نیک وصالح ہونا ہے ، صرف اپنی صنف کی وجہ سے بیٹے کو بیٹی پر کسی قسم کی برتری حاصل نہیں، اس لیئے یہ سوچ کسی طرح اسلامی نہیں کہ بیٹی بہتر اور بیٹا بہتر ین ہے۔ اگر اسلامی تاریخ کو دیکھا جائے تواسلامی معاشرہ  میں( جو حضور صلی ا للہ علیہ وسلم کے دور میں تھا ) بیٹی کو بڑی ترجیح دی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ جس نے دو بچیوں کی جوان ہونے تک پرورش کی میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے اور آپ نے انگلیوں کو ملایا۔“ ( صحیح مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ جس کسی کی لڑکی ہو پھر وہ اسے نہ زندہ درگور کرے نہ اس کی توہین کرے اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دے اللہ تعالٰی اسے جنت میں داخل کرے گا ۔“ ( سنن ابوداؤد )

بیٹی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب باپ گھر کوئی چیز لیکر جائے تو بچوں میں سے پہلے بیٹی کو دے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کو آتا ہوا دیکھتے تو پیار میں کھڑ ے ہو جاتے ۔ انکی پیشانی چومتے اور پاس بٹھاتے ، اسلام کے اندر بیٹی کو پالنا زیادہ ثواب کا کام ہے کیونکہ لڑکے پالنے سے آپ کا فائدہ ہوگا وہ کمائے گا کھلائے گا۔ بیٹی کو آپ نے صرف اللہ کی رضا کی خاطر پالنا ہے ۔ صرف اتنا عمل باپ اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار حائل کر دیگا۔ اگر ان روایات کو دیکھا جائےتو بیٹی افضل ہوئی ۔دوسری طرف بیٹے کی اولیت پر بھی بہت کچھ کہا جاسکتا ہے ، اس لیئے ابتداء میں جیسے ہم نے کہا کہ محض صنف کی بناء پر ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں، فضیلت دوسرے عوارض کی بناء پر ہوسکتی ہے، ا حضرت مریم علیہا السلام پیدائش پر ان کے والدین کی خواہش چونکہ بیٹے کی تھی، اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں  فرمایا : لیس الذکر کالانثی کہ مریم کی قدر وقیمت خدا ہی جانتا ہے، جس طرح کے بیٹے کی ان کو خواہش تھی وہ اس بیٹی کو کہاں پہنچ سکتا ہے ۔  اور دوسری طرف جب زکریا علیہ السلام کے ہاں بڑھاپے تک اولاد نہیں تھی تو انھوں نے اپنے بڑھاپے کا سہارا اولاد نرینہ کی دعا کرکے مانگا اور اللہ جل شانہ ان کو بیٹے کی بشارت بھی دی اور نام تک بتادیا کہ بیٹا ہوگا اور نام اس کا یحی ہوگا۔ اس لیئے اللہ جل شانہ سے نیک صالح اولاد مانگنی چاہیئے کسی جنس کی تعیین کے بغیر، اگرچہ تعیین کے ساتھ  مانگنا بھی جائز ہے۔ جن کے ہاں بیٹے ہی بیٹے ہیں وہ بیٹی کے خواہشمندنظر آتے ہیں اور بیٹیوں والوں کے دل میں اولاد نرینہ کی خواہشیں پروان چڑھ رہی ہوتی ہیں۔البتہ بیٹا ہو یا بیٹی ،اللہ پاک کے فیصلہ پر راضی رہنا چاہیئے۔   واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143710200023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں