بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کو شہوت سے چھونے سے بیوی کا حرام ہونا


سوال

اگر کوئی شخص اپنی بیٹی سے زنا کی طرز پر یعنی صرف اوپر سے زنا کرے تو بیوی طلاق ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کے ساتھ واقعۃً  زنا کرلے تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، اور اس کی بیوی اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے، اور اگر مکمل ہم بستری تو نہ کرے  بلکہ شہوت سے چھوئے  تو اگر اس میں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی:

1)        مس (چھونا) بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔ وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔

2)      چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے عضو مخصوص میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔

3)      شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

4)      شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

5)      عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

لہذا اگر کسی نے اپنی بیٹی کو شہوت سے چھوا اور درج بالا شرائط پائی گئی تو اس بیٹی کے اصول وفروع اس پر حرام ہوجائیں گے، اور اس کی بیوی اس کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی، اور اگر یہ شرائط نہیں پائی گئیں تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔البتہ باپ کا یہ فعل انتہائی قبیح ہے، اسے چاہیے کہ اس پر خوب توبہ واستغفار کرے، اور آئندہ کے لیے اس معاملہ میں نہایت احتیاط کرے، تنہائی میں اس سے بالکل نہ ملے۔

مصنف ابن أبي شیبه میں ہے: 

"عن إبراهيم، وعامر، في رجل وقع على ابنة امرأته قالا: «حرمتا عليه كلاهما». وقال إبراهيم: «وكانوا يقولون: إذا اطلع الرجل على المرأة، على ما لا تحل له، أو لمسها لشهوة، فقد حرمتا عليه جميعاً»." (مصنف ابن أبي شيبة (3/ 481) کتاب النکاح،  باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، برقم:16236، ط: مکتبة الرشد، ریاض)

وفیہ ایضاً: 

"عن مغيرة، عن إبراهيم، قال: «إذا قبل الأمة لم تحل له ابنتها، وإذا قبل ابنتها لم تحل له أمها»". (مصنف ابن أبي شيبة (4/ 11) کتاب النکاح، باب  ما قالوا في الرجل يقبل المرأة، تحل له ابنتها،الخ،  برقم:17267،   ط: مکتبة الرشد، ریاض)

فتاوی شامی میں ہے:

" (و) حرم أيضاً بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لايمنع الحرارة  (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقاً والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قلبه أو زيادته وفي الجوهرة: لايشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي ابن كمال وغيره".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں