بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی سے زنا کرنے کی صورت میں حد کا حکم


سوال

اگر کوئی بیٹی یا کسی اور محرم عورت سے زنا کر لے تو اس پر حد لگائی جائے گی؟

اور عصر حاضر میں تعزیر کا اختیار کس کو ہے؟

جواب

جی ہاں! جیسے غیر محرم سے زنا کے ثبوت کی صورت میں حد جاری کی جائے گی اسی طرح اگر کسی شخص کا اپنی کسی محرم عورت سے زنا ثابت ہوجائے (والعیاذ باللہ تعالیٰ) تو اس پر بھی حد کا حکم جاری ہو گا، اور عنداللہ اس کا گناہ بھی شدید تر ہوگا۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (23/ 290):
’’وقال الحسن: من زنى بأخته حده حد الزاني.
أي: قال الحسن البصري، كذا وقع في رواية الأكثرين، وعن الكشميهني وحده قال: منصور، بدل الحسن، وزيفوه. قوله: (حد الزاني) أي: كحد الزنا وهو الجلد، وفي رواية الكشميهني: حده حد الزنا‘‘.

اور حد جاری کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے، اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آئے تو حکومت ہی کو چاہیے کہ وہ حد جاری کرے، ہر آدمی حد جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے ۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 57):
’’وأما شرائط جواز إقامتها: فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام، وهذا عندنا‘‘. 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200688

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں