بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیویوں کے درمیان مساوات کی تفصیل


سوال

میں نے سناہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امہات المومنین کوصرف عصر کے وقت ملاکرتے تھے،یعنی اتناہی وقت متعین تھا؟اس بارے میں کیاتفصیل ہے؟

کیااسلام میں ایک بیوی کواپنےشوہرسے وقت مانگنے کا حق ہے یانہیں؟کیاوہ اپنے کام وغیرہ کوزیادہ ترجیح دے ؟بیوی اوراس کے بچے کتناحق رکھتے ہیں؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نوازواج مطہرات تھیں،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کے درمیان باری مقررفرمارکھی تھی،اسی مقررہ باری کے اعتبارسے ہرایک زوجہ مطہرہ کے پاس آپ تشریف لے جاتے تھے،چناں چہ ابوداؤد شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے منقول ہے:’’ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج کو تقسیم میں یعنی ہمارے پاس رہنے میں ایک دوسرے پر فوقیت نہیں دیتے تھے (بلکہ  تمام ازواج کے درمیان برابری کرتے تھے) ‘‘۔

یہ باری ایک ایک دن کی مقررتھی،البتہ بعد میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنیباری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دی تھی،چناں چہ ابوداؤد شریف کی مذکورہ بالاروایت میں ہے:

’’ جب سودہ بنت زمعہ بڑی عمر کی  ہو گئیں اور یہ خیال ہوا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو چھوڑ نہ دیں (یعنی طلاق نہ دے دیں) تو انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ کو بخش دی جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ ‘‘

یہ باری کامقررہونارات کے اعتبارسے تھا۔

دن میں باری کاشمارنہیں تھا،بلکہ عموماً عصرکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام بیویوں کے پاس خبرگیری کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں بہت کم ایساہواہوگاکہ(عصر کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام ازواج مطہرات کے پاس نہ گئے ہوں ۔البتہ رات وہیں گزارتے جہاں باری مقررہوتی۔

مذکورہ تفصیل سے یہ واضح ہوگیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف عصر کے بعد ہی ازواج مطہرات کووقت نہیں دیتے تھے جیساکہ آپ کے سوال سے مترشح ہورہاہے،بلکہ اصل وقت اور باری ہرزوجہ مطہرہ کے لیے رات کی مقررتھی ،عصر کے بعد آپ تمام ازواج مطہرات کی خبرگیری کے لیے سب کے پاس کچھ کچھ وقت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔

۲۔اسلام میں نکاح اور شادی کے بعدبیوی کی خبرگیری اور اس کانان ونفقہ رہائش وغیرہ کی ذمہ داری شوہرپرہے،اگرشوہردن میں معاش کی غرض سے باہررہتاہوتورات اپنے گھرپرگزارناضروری ہے،بلاضرورت گھرکے علاوہ کہیں اورقیام درست نہیں۔

شوہرسے وقت مانگنے کاحق ہے یانہیں؟اس سوال سے اگرمقصودیہ ہے کہ عورت جووقت چاہے شوہروہی وقت گھرپر گزارے، ایساشرعاً شوہرپرلازم نہیں۔اگرکوئی شخص اپنے کام کاج کی مصروفیات کے ساتھ اہل وعیال کاخیال رکھتاہوان کی دیکھ بھال کرتاہواور ان کی ضروریات پوری کرتاہوکسی شکایت کاموقع نہ دیتاہو توایساشخص شرعی احکامات پرعمل پیراشمارہوگا۔

بیوی بچوں کووقت دینااوران کی خبرگیری مردپرلازم ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں موجود ہے کہ آپ گھروالوں کے ساتھ گفتگوفرماتے،ان کی خبرگیری فرماتے،گھریلوکاموں میں ان کاہاتھ بٹاتے،ہنسی مذاق فرماتے،دل لگی  فرماتے ،اور ساتھ ہی دیگرتمام تمام امور بھی سرانجام دیاکرتے تھے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت میں  ہمارے لیے بہترین نمونہ اور اسوہ موجودہے۔

البتہ شوہرکو کام کاج کی مصروفیات سے روکنااوراس کی ملازمت کے وقت کواپنے لیے طلب کرنادرست نہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143803200005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں