بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیویوں اور اولاد میں نا انصافی کرنا


سوال

میرے والد نے دو شادیاں کی ہوئی ہیں، والد بھی زندہ ہیں اور دونوں بیویاں بھی، اور ان دونوں سے ٹوٹل 11بچے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ایک بیوی سے پیار کرتے ہیں، اور اس کی اولاد سے،  دوسری بیوی اور اس کی اولاد سے نفرت کرتے ہیں۔ اور اپنی جائیداد میں سے کچھ بھی اپنی دوسری بیوی اور اس کے بچوں کونہیں دینا چاہتے، تو اب وہ بیوی اور بچے کیا کریں ؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے بیوی اور بچوں کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم رکھا ہے، اگر کوئی شوہر  اپنی بیوی اور بچوں کا نفقہ ادا نہیں کرتا تو گناہ گار ہو گا اور اس صورت میں بیوی کو یہ حق ہو گا کہ وہ اپنے نفقہ کی وصولی کے  لیے قانون کا سہارا لے اور شوہر سے اپنا حق وصول کرے۔

نیز شوہر کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر اس کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان میں برابری کرے، ان میں ہرگز نا انصافی والا معاملہ نہ کرے،  ورنہ سخت گناہ گار ہو گا؛ حدیث شریف میں ہے جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان عدل نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب مفلوج ہوگی۔ اس  لیے آپ کے والد کو  چاہیے کہ وہ اپنی دونوں بیویوں میں مکمل برابری کریں۔

اسی طرح زندگی میں اپنی اولاد کو ہدایا دینے سے متعلق بھی شریعت کا حکم یہ ہے کہ اپنی اولاد میں برابری کرے، اگر کوئی والد کسی معتبر شرعی وجہ کے بغیر اپنی بعض اولاد کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دے، یا کسی کو محرورم رکھے تو یہ بھی گناہ کا کام ہے۔اگر وہ ایک بیوی اور اس کی اولاد کو میراث سے محروم رکھنا چاہتے ہیں تو یہ ایک مزید گناہ ہے، حدیث شریف میں اس پر بھی وعید آئی ہے کہ جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، یعنی اسے میراث سے محروم کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جنت کی میراث کاٹ دیں گے۔

اس  لیے آپ اپنے والد  کی کسی مستند عالم سے ملاقات کروائیں؛ تا کہ وہ آپ کے والد کو تمام مسائل سے مطلع کریں۔

الفتاوى الهندية (1/ 544):
"تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية، دخل بها أو لم يدخل، كبيرةً كانت المرأة أو صغيرةً، يجامع مثلها، كذا في فتاوى قاضي خان. سواء كانت حرةً أو مكاتبةً، كذا في الجوهرة النيرة".

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة». رواه ابن ماجه". (مشكاة المصابيح (2/ 926) کتاب الفرائض، باب الوصایا، الفصل الثالث، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»". (مشکوٰۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة: لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين، وإن كانوا سواء يكره، وروى المعلى عن أبي يوسف: أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف  الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية، والعرف لايعارض النص، هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ".(4/444، کتاب الوقف،ط: سعید)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200582

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں