اگر بیوی کے کسی کے ساتھ ناجائز تعلقات ہوں اور وہ اس کا اقرار بھی کرے تو کیا نکاح ختم ہو جائے گا؟ اور وہ اپنے گناہوں پر نادم ہو اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے تو کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ حرام عمل کی وجہ سے نکاح ختم نہیں ہوتا، البتہ اگر (خوانخواستہ) بیوی کے ناجائز تعلقات شوہر کے اصول (یعنی والد یا دادا) یا فروع (مثلاً شوہر کے سابقہ بیوی سے بیٹے) کے ساتھ ہوں تو اس سے بیوی اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے، اگر ان سے تعلق نکاح سے پہلے ہوا ہو تو یہ نکاح ہی جائز نہیں ہوتا، اور اگر نکاح کے بعد تعلق ہو تو بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے، تاہم نکاح ختم کرنے کے لیے زبان سے کہہ کر بیوی کو نکاح سے نکالنا لازم ہوتاہے۔
نیز اگر ان رشتوں کے علاوہ کسی اور سے ناجائز تعلقات کی وجہ سے حمل ٹھہر جائے تو اس صورت میں وضع حمل سے پہلے تک شوہر کے لیے اپنی منکوحہ سے جسمانی تعلقات قائم کرنا ممنوع ہوگا۔
اگر عورت مذکورہ گناہ سرزد ہونے کے بعد واقعۃً نادم و پشیمان ہے، اور سچے دل سے تائب ہے، اور قرائن سے اندازا ہوکہ وہ واقعی پاکیزہ زندگی گزارنا چاہتی ہے اور شوہر کی عزت کے تحفظ پر آمادہ ہے تو شوہر کو اس کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ساتھ رکھنا چاہیے، اس میں شوہر کو اجر ملے گا، تاہم اس صورت میں بھی اہل وعیال کی دیکھ بھال سے بالکل غافل نہ ہو، نیز بے دلیل شک اور وہم کا شکار بھی نہ ہو۔ اور اگر عورت کے تعلقات ختم نہ ہوں، یا قرائن سے شوہر مطمئن نہ ہو تو اسے طلاق دینے کی اجازت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200490
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن