بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس ترکہ میں سے آدھے کا حق دار شوہر ہوتا ہے


سوال

میری شادی کو 10 سال ہوچکے ہیں،  میری اہلیہ کافی بیمار رہتی ہیں،  ہماری کوئی اولاد نہیں ہے، میری اہلیہ نوکری پیشہ ہیں،  سرکاری محکمہ میں افسر ہیں،  اچھی تنخواہ ملتی ہے،  جب کہ میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کرتا ہوں، اور قابلِ قبول تنخواہ ہے،  میں اپنی تنخواہ گھریلو اخراجات و ضروریاتِ زندگی میں خرچ کرتا ہوں، اور شوہر ہونے کی حیثیت سے اپنی اہلیہ کو ماہانہ خرچہ بھی دیتا ہوں،  دیگر تمام اخراجات، جیسے ڈاکٹر و دوائیوں کے خرچہ سب میں خود ہی کرتا ہوں،  میں نے گھریلو اخراجات کے حوالے سے کبھی بھی اپنی اہلیہ کو  ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کا نہیں کہا ہے، میں ہی سارے کے سارے اخراجات اٹھاتا ہوں، مگر  میں نے یہ  نوٹ کیا ہے کہ میری اہلیہ مجھ سے اپنی تمام سیلری چھپاتی ہے، اور بینک اکاؤنٹ میں اپنی تنخواہ کی خطیر رقم ہر ماہ محفوظ کر لیتی ہے،  کافی عرصہ سے میں نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں، ماں اور بھائیوں  پر کافی خرچہ کرتی ہے،  جو کہ پہلے سے ہی کافی خوش حال ہیں،  نیز اہلیہ نے اپنی تمام قیمتی چیزیں جیسے سونا ، زمین کے کاغذات سب اپنی ماں کے پاس رکھے ہوئے ہیں، موصوفہ کو مجھ پر جیسے اعتماد نہ ہو،  میری اہلیہ اکثر بیمار رہتی ہے، کچھ  کومپلیکیشنز  ہیں، میں ان کی صحت کے  لیے مقدور بھر کوشش کرتا رہتا ہوں،  لیکن میرا ایک  سوال ہے کہ اگر موصوفہ بیماری کی وجہ سے گزر جاتی ہیں تو کیا ان کے ترکہ میں میرا کوئی حق ہوگا یا حق دار ماں اور بھائی ہی ہوں گے؟

جواب

واضح رہے کہ  بیوی کا نفقہ اوراخراجات سائل پر وہ واجب ہیں اورسائل کی بیوی جو کچھ خود کماتی ہے زندگی میں اس میں  اپنی مرضی سے جائز تصرف کرنے کے حوالے سے بیوی خود مختارہے، جیسے چاہے تصرف کر سکتی ہے،  کسی کو روکنے کا حق نہیں۔

جیسا کہ مجلة الأحكام العدليةمیں ہے:

"الْمَادَّةُ (١١٩٢) كُلٌّ يَتَصَرَّفُ فِي مِلْكِهِ كَيْفَمَا شَاءَ. لَكِنْ إذَا تَعَلَّقَ حَقُّ الْغَيْرِ بِهِ فَيُمْنَعُ الْمَالِكُ مِنْ تَصَرُّفِهِ عَلَى وَجْهِ الِاسْتِقْلَالِ. مَثَلًا: الْأَبْنِيَةُ الَّتِي فَوْقَانِيِّهَا مِلْكٌ لِأَحَدٍ وَتَحْتَانِيِّهَا لِآخَرَ فَبِمَا أَنَّ لِصَاحِبِ الْفَوْقَانِيِّ حَقُّ الْقَرَارِ فِي التَّحْتَانِيِّ وَلِصَاحِبِ التَّحْتَانِيِّ حَقُّ السَّقْفِ فِي الْفَوْقَانِيِّ أَيْ حَقُّ التَّسَتُّرِ وَالتَّحَفُّظِ مِنْ الشَّمْسِ وَالْمَطَرِ فَلَيْسَ لِأَحَدِهِمَا أَنْ يَعْمَلَ عَمَلًا مُضِرًّا بِالْآخَرِ بِدُونِ إذْنِهِ وَلَا أَنْ يَهْدِمَ بِنَاءَ نَفْسِهِ". ( الْبَابُ الثَّالِثُ فِي بَيَانِ الْمَسَائِلِ الْمُتَعَلِّقَةِ بِالْحِيطَانِ وَالْجِيرَانِ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ: فِيْ بَيَانِ بَعْضِ قَوَاعِدِ أَحْكَامِ الْأَمْلَاكِ، ١ / ٢٣٠)

صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل کی اہلیہ کا انتقال سائل سے پہلے ہوجاتا ہے، اور انتقال کے وقت تک ان کی کوئی اولاد بھی نہ ہو تو اس صورت میں سائل کو اپنی مرحومہ بیوی کے کل ترکہ کا آدھا حصہ بطورِ  میراث ملے گا، اور اگر سائل کا پہلے انتقال ہوجاتا ہے اور اس وقت تک سائل کی کوئی اولاد نہ ہو، نہ مذکورہ بیوی سے اور نہ ہی کسی اور بیوی سے تو اس صورت میں سائل کے کل ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ بطورِ میراث سائل کی مذکورہ بیوی کو ملے گا۔ 

باقی اگر کسی معقول شرعی وجہ سے بیوی کی ملازمت ضروری ہو تو انہیں چاہیے کہ پردے کے شرعی احکام کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے وہ ملازمت کریں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں