بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی اصلاح کا طریقہ


سوال

میری بیوی میری کوئی بات نہیں مانتی، میری شادی کو 5 سال ہو چکے ہیں اور میرے دو بچے ہیں، میں جو کام کہتاہوں اس کا الٹا کرتی ہے، اس وجہ سے میں اسے طلاق دینا چاہتا ہوں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ شرعی حیثیت پر روشنی ڈالیں!

جواب

بیوی کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے اخلاق کا معاملہ کیا جائے، اللہ تعالی نےمردوں کو مخاطب بناکر ارشاد فرمایا:﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالمَعرُوفِ فَاِنْ کَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسیٰ اَنْ تَکْرَهُوْا شَیْئًا وَّ يَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْراً كَثِيْراً﴾ (نساء: 19) ترجمہ: ”اُن عورتوں کے ساتھ اچھی گزر بسر کرو اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں، تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور خدا اُس کے اندر کوئی بڑا فائدہ رکھ دے“۔

قرآن کریم میں نافرمان بیوی کی اصلاح کے تین طریقے ذکرکیے گئے ہیں:پہلادرجہ یہ ہے کہ انہیں نرمی سے سمجھایاجائے ،اگروہ محض سمجھانے سے بازنہ آئیں تودوسرادرجہ یہ ہے کہ ان کابسترالگ کردیاجائے ،تاکہ ان کوشوہرکی ناراضی کااحساس ہو اوراپنے فعل پرنادم ہوں،اورجوعورت اس طرح کی شریفانہ تنبیہ سے بھی متاثر نہ ہوتوپھرشرعاً تادیب کے لیے معمولی ضرب کی بھی اجازت دی گئی ہے،جس سے اس کے چہرے اور بدن پر کوئی نشان نہ پڑیں۔

پھر بھی اگر بیوی کی اصلاح نہ ہو تو دونوں خاندانوں کے بڑوں کو اس معاملہ میں شامل کیا جائے اور ان کے ذریعے یہ مسئلہ حل کروایا جائے۔ارشاد باری ہے: 

﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَّ حَکَمًا مِّنْ أَهْلِهَا﴾ (النساء:35)

طلاق  اللہ تعالی کو  حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ  ہے، اس سے حتی الوسع بچنا ہی بہتر ہے، اگر آپ مذکورہ تمام مراحل میں اصلاح کوشش کرچکے ہیں یا آئندہ کوشش کرلیں اور اصلاح کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوں تو اسے طلاق دینے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں