بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو ” میری طرف سے اجازت ہے کہ یہ جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے“ کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

ایک لڑکی کا نکاح وٹہ سٹہ کے تحت کچھ سال قبل ایک شخص سے ہوا، شادی کے جلد ہی بعد ایک دوسرے کے شکوے شکایتیں شروع ہو گئیں، اس کے بعد ناچاقی اور الزامات،  بات اس قدر جا پہنچی کہ ایک دفعہ لڑکے کے بھائیوں نے لڑکی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کی خبر ملتے ہی لڑکی کے والدین اسے اپنے گھر لے گئے، کافی عرصہ لڑکی اپنے والدین کے گھر رہی،  مگر شوہر کی طرف سے کوئی بھی اسے لینے نہ آیا،  جس کے بعد لڑکی کے ورثاء نے خلع کا مطالبہ کیا، مگر شوہر نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نہ میں اسے اپنے گھر آنے دوں گا اور نہ ہی اسے طلاق یا خلع دوں گا،  کافی عرصہ انتظار اور مشاورت کی، ناکام کوشش کرنے کے بعد لڑکی نے عدالت میں خلع  کی درخواست دائر کردی، عدالت نے شوہر کو متعدد نوٹس بھیجے، مگر وہ نوٹس ملنے کے باوجود عدالت میں حاضر نہ ہوا، عدالت کی طرف سے متعدد اخبارات میں بھی نوٹس چھپوائے، مگر شوہر کے حاضر نہ ہونے کے بعد عدالت نے نکاح فسخ قرار دیتے ہوئے اس لڑکی کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت دے دی۔

عدالتی حکم کے کچھ وقت تک تو لڑکے والے خاموش رہے، لیکن جب لڑکی والوں نے اس کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تو شوہر کی جانب سے دھمکی آمیز پیغامات آنا شروع ہو گئے، جس کے بعد لڑکی نے ایک بار پھر ہائی  کورٹ میں اس شخص پر ہراساں کرنے کا مقدمہ درج کرایا،  پہلی پیشی پر وہ نہ آیا ، جس کے بعد عدالت نے متعلقہ تھانے کے ذریعے اس شخص کو حاضر کرانے کی ذمہ داری   دی، اگلی پیشی پر وہ شخص اور اس کے بھائی جن پر کیس تھا حاضر ہوئے تو جج صاحب نے دریافت کیا کہ جب عدالت نے نکاح فسخ کیا ہے تو آپ اس کے باوجود اس لڑکی کو شادی کی اجازت کیوں نہیں دے رہے؟ اور اسے کیوں ہراساں کر رہے ہو؟  اس کے جواب میں اس شخص (شوہر) نے کہا:

"میں نے نہ اسے شادی سے منع کیا ہے اور نہ کروں گا، میری طرف سے اجازت ہے کہ یہ جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے،  یہ اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہے شادی کرے، ہم اسے منع نہیں کریں گے۔"

اس شخص کے اس اعترافی بیان کی تمام بات اور عدالت نے متعلقہ تھانے کو تحفظ فراہم کرنے کا نوٹس جاری کیا، عدالت سے باہر آنے کے بعد جب لوگوں نے اس شخص سے پوچھا تو اس نے اپنے عدالت میں ریکارڈ کرائے گئے بیان سے لاتعلقی اور انکار کیا اور کہتا ہے کہ میں نے نہ طلاق دی ہے، نہ خلع  اور میرا نکاح اس لڑکی سے باقی ہے، اب جب کہ عدالت میں اس شخص نے مذکورہ لڑکی کو اجازت دی اور یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے تو کیا اس کے بعد یہ نکاح ختم ہو گیا یا باقی رہتا ہے؟  کیا اس کاروائی کے بعد شرعی طور پر مذکورہ لڑکی دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر، بیوی نے جو یک طرفہ طور پر عدالت سے خلع لیا ہے اس کا شرعًا اعتبار نہیں ہے، البتہ بعد ازاں  جب شوہر نے عدالت میں بیوی کو  دوسری جگہ نکاح کرنے کی اجازت دینے کے مطالبہ پر یہ جملہ کہا کہ ”میں نے نہ اسے شادی سے منع کیا ہے اور نہ کروں گا، میری طرف سے اجازت ہے کہ یہ جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے، یہ اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہے شادی کرے“،   یہ طلاق کے کنایہ الفاظ ہیں، اگر شوہر حلفًا کہتا ہے کہ اس کی نیت اس جملہ سے طلاق کی نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، مذکورہ خاتون کا نکاح اپنے شوہر سے برقرار رہے گا اور اگر اس جملہ سے طلاق کی نیت ہو تو   بیوی پر ایک  طلاقِ بائن واقع ہوگئی اور نکاح ختم ہوگیا، شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہوگا،  عدت کے بعد مطلقہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 314) :

" اذهبي وتزوجي تقع واحدة بلا نية.

(قوله: تقع واحدة بلا نية) لأن تزوجي قرينة، فإن نوى الثلاث فثلاث بزازية، ويخالفه ما في شرح الجامع الصغير لقاضي خان: ولو قال: اذهبي فتزوجي وقال: لم أنو الطلاق لايقع شيء؛ لأن معناه إن أمكنك اهـ إلا أن يفرق بين الواو والفاء وهو بعيد هنا بحر، على أن تزوجي كناية مثل اذهبي فيحتاج إلى النية فمن أين صار قرينة على إرادة الطلاق باذهبي مع أنه مذكور بعده والقرينة لا بد أن تتقدم كما يعلم مما مر في اعتدي ثلاثا فالأوجه ما في شرح الجامع، ولا فرق بين الواو والفاء، ويؤيده ما في الذخيرة اذهبي وتزوجي لايقع إلا بالنية وإن نوى فهي واحدة بائنة، وإن نوى الثلاث فثلاث."

النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 360) :

"ولو قال: (اذهبي) فتزوجي وقال: لم أنو لم يقع لأن معناه إن أمكنك، قاله قاضي خان والمذكور في (الحافظية) وقوعه بالواو بلا نية، ولو قال: إلى جهنم وقع إن نوى، كما في (الخلاصة) والله الموفق، (ابتغي الأزواج) إن قدرت أو لأني طلقتك ومثله تزوجي."

الفتاوى الهندية (1/ 376) :

"ولو قال لها: اذهبي فتزوجي تقع واحدة إذا نوى فإن نوى الثلاث تقع الثلاث."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200077

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں