بیوی کو غلطی سے طلاق کہہ دیا تو کیا طلاق ہو جائے گی؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نکاح، طلاق اور رجوع ان امور میں سے ہیں جن کے وقوع کے لیے قصداً ان امور کو انجام دینا ضروری نہیں، پس اگر یہ افعال مذاق میں یا غلطی سے انجام دے دیے گئے تو شرعاً ان پر احکامِ شرع مرتب ہوجاتے ہیں، جیسا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں:
"عَن أَبِي هُرَيرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: "ثَلَاثٌ جِدٌّهُنَّ جِدُّ وَهَزلُهُنَّ جِدُّ: النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجعَةُ". رواه أبو داود (2194)، والترمذي (1184)، وابن ماجه (2039)، والحاكم (2/198).
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے بغیر سوچے سمجھے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے اور اس طلاق کی نسبت اپنی بیوی کی طرف صراحۃً یا اشارۃً کی تھی تو اس کی وجہ سے طلاق واقع ہو جائے گی۔ تاہم سوال میں آپ نے الفاظِ طلاق تحریر نہیں کیے ہیں؛ لہذا کتنی طلاق واقع ہوں گی اس کا حتمی جواب دینا ممکن نہیں، لہذا جو الفاظ کہے تھے وہ تحریر کرکے دوبارہ معلوم کرلیں۔
البتہ اگر بیوی کو غلطی سے طلاق کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بیوی کو کچھ اور کہنا چاہتے تھے مگر منہ سے طلاق نکل گیا ہو تو ایسی صورت میں دیانۃً طلاق واقع نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200276
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن