بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو طلاق کا اختیار دینا


سوال

ہ میں نے آج سے پانچ سال پہلے گواہوں کی موجودگی میں اپنی اہلیہ سے باون ہزار مہر کے عوض نکاح کیا،ہمارے والدین راضی نہ تھے،لیکن ہم نے دس سال کی کوششوں کے بعد تنگ آکر یہ قدم اٹھایاتھا،ہماراپلان یہ تھاکہ ہم ملک سے باہرچلے جائیں گے اور پھر شادی کاسب کو بتائیں گے،شادی کے چوتھے سال میں نے مہربھی اداکردیاتھا،شادی کے بعد تین سال اچھے گزرے اور تین سال کے بعد یک دم میری بیوی کی طرف سے طلاق کا مطالبہ شرو ع ہوگیا،میں سمجھاتاتھامگر وہ نہ مانتی تھی،ایک دن اس نے بہت مطالبہ کیاتومیں نے موبائل پر لکھ کر اسے دکھادیا،اس وقت ہم ساتھ ہی بیٹھے تھے،میں نے میسج میں لکھاتھا کہ ’’ “I divorce you” ‘‘یا شاید اردو میں لکھاتھا کہ میں تمہیں طلاق دیتاہوں،لیکن اس کے دوسرے دن ہی میری بیوی نے طلاق واپس لینے کو کہاتومیں نے رجو ع کرلیا،اس کے کچھ دن بعد اس نے پھر اتنامجبور کیاکہ میں نے اسے میسج پرلکھ کر دے دیا کہ تم چاہوتواپنے آپ کو ایک طلاق دے دو،یایہ کہاتھاکہ جوتم چاہتی ہووہ کرلو،ہم دونوں کو پکاجملہ یادنہیں،اس پر میری بیوی نے میسج کیاتھاکہ میں نے اپنے آپ کو طلاق دی،دوسرے دن اس نے مجھے رجوع کرنے کاکہامیں بہت غصہ بھی ہوا لیکن میں نے رجوع کرلیا،اس کے بعد پھرایک بار طلاق کا مطالبہ شروع کردیا اور تقریباً ایک مہینہ تک مسلسل مطالبہ کیاکہ مجھے طلاق دو،میں نے مجبور ہوکراس کو لکھ دیاکہ تم جو چاہتی ہووہ خود کو دے دو،توا س پر اس کا میسج آیاکہ میں نے خود اور اور آپ کو طلاق دے دی،اب اس کے بعد وہ بہت پریشان ہے کہ نہیں ایساکچھ نہیں ہوا،مجھے کہتی ہے کہ آپ نے تو طلاق کالفظ استعمال نہیں کیالہذا طلاق نہیں ہوئی۔

آخری دو دفعہ جو کچھ بات ہوئی وہ میسج پر ہوئی ہے،اور یہ سب کچھ میسج پر ہی لکھاگیا،سچ یہ ہے کہ میں اسے طلاق نہیں دیناچاہتاتھا،مگر اس کے مجبور کرنے کی وجہ سے دونوں دفعہ یہ ذومعنی الفاظ کہہ کر جان چھڑانی چاہی، میرااپناارادہ اس کو طلاق دینے کا نہیں تھا،نکاح کے وقت طلاق کا حق بیوی کو دینے کی شرط بھی نہیں تھی،میں نے اسی لیے اپنی زبان سے طلاق کے الفاظ استعمال نہیں کیے تھے بلکہ میسج لکھاتاکہ وہ اس بات پر عمل نہ کرے،اب پوچھنایہ ہے کہ کیایہ طلاقیں واقع ہوگئی ہیں یانہیں؟

یایہ نکاح ہی نہیں ہواتھا کیوں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ براہ کرم ہماری راہنمائی فرمائیں ،ہم دونوں بہت پریشان ہیں۔

جواب

بالغ لڑکااور لڑکی اپنی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کریں تونکاح منعقد ہوجاتاہے،آپ نے جو تفصیل لکھی ہے اس کی روشنی میں (جس سے محسوس ہورہاہے کہ نکاح کے بعد آپ دونوں ساتھ رہے ہیں) آپ کی بیوی پرتینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، اب رجوع یانکاح جدید کااختیار حاصل نہیں ہے۔پہلی طلاق توصاف اور واضح ہے،جس کے بعد آپ نے رجوع کرلیاتھا، بیوی کی جانب سے طلا ق کے  مطالبہ پر دوسری بار دوبارہ آپ نے اُسے اختیار دیا،اور اُس نے اپنے او پر طلاق واقع کردی ،اسی طرح تیسری بار بھی طلاق کے مطالبے پر آپ نے اختیار سپردکیااور بیوی نے تیسری طلاق بھی اپنے اوپرواقع کردی۔طلاق کے لیے صریح لفظ’’طلاق‘‘کاہونالازم نہیں ، طلاق کے مطالبے پر اختیاردینابھی طلاق کاہی اختیارسمجھاجاتاہے،لہذا تینوں طلاقوں کے واقع ہوجانے کی بناپررشتہ ٹوٹ چکاہے اور ساتھ رہناجائزنہیں ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143606200036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں