بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو الگ واش روم فراہم کرنا


سوال

شادی کے بعد بیوی کو الگ باتھ روم دینے کے حوالہ سے شرعی حکم کیا ہے؟ میرے گھر میں دو باتھ روم ہیں، کیا  ایک جو  میرے کمرے کے ساتھ  ہے اس کو صرف میری بیوی استعمال کر سکتی ہے یا باقی گھر والے بھی استعمال کرسکتے ہیں؟ ہمارے گھر میں اس معاملہ میں اکثر بحث ہوتی رہتی ہے، اس معاملہ میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شوہر پر شرعاً لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رہائش کے لیے ایسی جگہ فراہم کرے جس میں عملاً کسی اور کا دخل نہ ہو ۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر دو بیت الخلاء میں سے ایک، کمرے کا ہی حصہ ہو تو وہ بیت الخلاء سائل اور اس کی بیوی کے لیے خاص ہوگا، البتہ اگر وہ کمرے کا حصہ نہیں ہے ، بلکہ مشترکہ ہے تو اس صورت میں   باہمی رضامندی سے ایک بیت الخلاء گھر والوں کے لیے متعین کردیا جائے اور دوسرا سائل اپنے اور اپنی بیوی کے لیے متعین کردے تو کرسکتا ہے، شرعاً اس کی اجازت ہے۔ اور اگر بیوی کے گھرانے میں سب کے الگ بیت الخلاء ہونے کا رواج ہو تو اس صورت میں شوہر کو اسے الگ بیت الخلاء کرنا ہوگا۔ باقی حسنِ معاشرت میں اصول اور قواعد سے زیادہ اخلاق اہمیت رکھتے ہیں، موقع محل کو دیکھتے ہوئے جانبین کو وسعت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنی لها عليه في بيت خال عن أهله و اهلها إلا أن تختار ذلك، كذا في العيني شرح الكنز". (الفصل الثاني في السكني، ١/ ٥٥٦، ط: رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَالسُّكْنَى فِي بَيْتٍ خَالٍ عَنْ أَهْلِهِ وَأَهْلِهَا) مَعْطُوفٌ عَلَى النَّفَقَةِ أَيْ تَجِبُ السُّكْنَى فِي بَيْتٍ أَيْ الْإِسْكَانُ لِلزَّوْجَةِ عَلَى زَوْجِهَا؛ لِأَنَّ السُّكْنَى مِنْ كِفَايَتِهَا فَتَجِبُ لَهَا كَالنَّفَقَةِ، وَقَدْ أَوْجَبَهَا اللَّهُ تَعَالَى كَمَا أَوْجَبَ النَّفَقَةَ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ} [الطلاق: ٦] أَيْ مِنْ طَاقَتِكُمْ أَيْ مِمَّا تُطِيقُونَهُ مِلْكًا أَوْ إجَارَةً أَوْ عَارِيَّةً إجْمَاعًا، وَإِذَا وَجَبَتْ حَقًّا لَهَا لَيْسَ لَهُ أَنْ يُشْرِكَ غَيْرَهَا فِيهِ؛ لِأَنَّهَا تَتَضَرَّرُ بِهِ؛ فَإِنَّهَا لَا تَأْمَنُ عَلَى مَتَاعِهَا وَيَمْنَعُهَا ذَلِكَ مِنْ الْمُعَاشَرَةِ مَعَ زَوْجِهَا وَمِنْ الِاسْتِمْتَاعِ إلَّا أَنْ تَخْتَارَ؛ لِأَنَّهَا رَضِيَتْ بِانْتِقَاصِ حَقِّهَا". (٤/ ٢١٠) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں